*مرغی کی تین ٹانگیں*
تحریر :- عزیزخان ایڈوکیٹ لاہور
میں 2003 میں ایس ایچ او تھانہ شیدانی شریف ضلع رحیم یار خان تعینات تھا میں تھانہ پر اپنے دفتر میں موجود تھا میرا پُرانا ملازم فدا حسین آیا اُس کے ہاتھ میں ایک پلاسٹک بیگ تھا بولا میں آپ کو کُچھ دیکھانا چاہتا ہوں بیگ کھولا تو اُس میں مُرغی کا گوشت تھا میں نے فدا کی طرف دیکھا اور کہا یہ کیا ہے ؟
سر اس مرغی کی تین ٹانگیں ہیں
کیا مطلب میں نے حیرت سے کہا ! جو روئیداد فدا نے سُنائی وہ کُچھ اس طرح سے تھی کہ وہ صُبح مُرغی لینے ایک دوکان پر گیا
دوکاندار سے مرغی لے کر اُس کا وزن کروایا قیمت ادا کی دوکاندار کو مُرغی ذبح کرکے گوشت بنانے کا کہا اور خود ساتھ والی دوکان سے سبزی لینے چلاگیا واپس آیا مرغی والے ایک پلاسٹک بیگ میں مُرغی ڈال کر اُسے دے دی گھر جا کر مرغی پکانے کے لیے نکالی دیکھا
تو اُس میں مُرغی کی تین ٹانگیں ہیں وہ دوکاندار کے پاس گیا تو اُس نے بات سُننے سے انکار کر دیا کہتا ہے میں نے تو پوری مرغی آپ کو دے دی تھی
میں نے فدا سے پوچھا کہ دوکاندار کو معلوم ہے کہ آپ ایس ایچ او کے ملازم ہو تو فدا نے ہاں میں جواب دیا
میں نے محرر تھانہ عاشق کو بُلایا اور کہا مرغی والے دوکاندار کو لے کر آئے تھوڑی دیر بعد دوکاندار آگیا
میں نے اُس سے پوچھا کہ مرغی کی تین ٹانگیں کیسے ہو گئی ہیں پہلے تو مُرغی والا ماننے کو تیار ہی نہ تھا کہ فدا نے اُس سے مُرغی لی ہے
شیدانی شریف میں اکثریت کوریجہ صاحبان کی ہے اور اُن کا سیاسی اثررسوخ بُہت ہوتا ہے
تھانہ پر ایس ایچ او بھی اُن کی مرضی سے لگتا ہے یہ ساری دوکا نیں بھی کوریجہ صاحبان کی ہیں اور یہ سب لوگ اُن کے کرایہ دار ہوتے تھے
اس وجہ سے تھانہ کے ہر کام میں اُن کی مداخلت ضرور ہوتی ہے تھوڑی دیر میں کوریجہ صاحبان کے ٹیلی فون آنا شروع ہوگئے
کہ مرغی والے کو چھوڑ دیں
کیونکہ میری پوسٹنگ سیاسی نہیں تھی میری ایک ہی بات تھی
کہ اگر یہ دوکاندار ایس ایچ او کے ملازم سے یہ حرکت کر سکتا ہے تو باقی لوگوں سے کیا کرتا ہوگا ؟
دوکاندار تھا کہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھا کہ فدا مُرغی اس سے لے کر گیا ہے
میں نے محرر تھانہ کو کہا مُرغی کا پلاسٹک شاپر دوکاندار کے منہ پر باندھے دے اسے حوالات میں بند کر دے اور اب اس پر مقدمہ بھی درج کرنا ہے گرمی کے دن تھے تھوڑی دیر بعد تھانہ سفارشیوں سے بھر گیا ان میں اکثریت کوریجہ صاحبان کی تھی جو دوکاندار کے منہ پر مرغی کا بیگ بندھا دیکھ رہے تھے اور مجھ پر مختلف کارنرز سے دباو ڈال رہے تھے کہ مُرغی والے کو چھوڑ دوں مگر میری صرف ایک ہی بات تھی کہ دوکاندار اپنا قصور مان لے اور آئیندہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دے
پھر ایسا ہی ہوا گرمی کی شدت اور حوالات کے ماحول نے دوکاندار کا دماغ درست کردیا اور اُس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے جو کہانی سُنائی وہ کُچھ اس طرح سے تھی کہ جیسے ہی فدا سبزی لینے گیا تو اُس نے پُرانا بچا ہوا گوشت بیگ میں ڈال کر فدا دے دیا اور زندہ مرغی جو فدا نے لی تھی وہ ذبح نہ کی اور اُسے دوبارہ پنجرے میں ڈال دیا میں نے دوکان دار کو اپنی غلطی تسلیم کرنے اور کبھی بھی ایسا نہ کرنے کے وعدہ پر چھوڑ دیا
کُچھ دن قبل عدالت عالیہ نے مُرغی کے ریٹ حکومت کو نہ نکالنے کی ہدایت کر دی تھی اب یہ ریٹ پولٹری مافیہ اور دوکاندار بیٹھ کر بنائیں گے کہ مُرغی کس بھاو بکے گی چینی کے ریٹ پر بھی عدالت کی پابندی لگ چکی ہے ماہ رمضان میں ایک کلو چینی لینے کے لیے عوام دربدر ہے منافع خور ہیں کہ اُنکا پیٹ نہیں بھر رہا
پوری دُنیا میں ماہ رمضان میں کھانے پینے کی چیزیں سستی کر دی جاتی ہیں مگر ہم منافع خوری کے لیے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں
ہم بحیثیت قوم زبوں حالی کا شکار ہیں ہم قانون توڑ کر خوشی محسوس کرتے ہیں ہم نے تو کورونا جیسی بیماری کو کوئی اہمیت نہیں دی جس نے پوری دُنیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے
ہم کسی حکومتی اقدامات کو نہیں مانتے جب یہ ان منافع خوروں کو عدالت سے آزادی ملے گی تو وہ کیا کریں گے
پھر تو ہر طرف مُرغی کی تین ٹانگیں ہی نظر آئیں گی؟؟؟؟؟
Comments