سندھ پولیس کے افسرانکاؤنٹر سپیشلسٹ
کراچی پولیس کے (شاید) سب سے معروف افسر بننے والے محمد اسلم خان کو آپ سب ’چوہدری‘ اسلم کے نام سے جانتے ہیں۔
آج سے لگ بھگ سات برس قبل، یعنی نو جنوری 2014 کو ایک مبینہ خودکُش حملے میں ڈرائیور اور محافظ کے ساتھ ہلاک ہو جانے والے چوہدری اسلم نہ تو خاندان یا ذات کے لحاظ سے چوہدری تھے، نہ چوہدری کا خطاب اُن کے نام کا حصّہ تھا۔
پھر نہ معلوم کیوں ،کب ،کس نے اور کیسے اُن کے نام کے ساتھ چوہدری کا سابقہ لگایا جو بالآخر اُن کے نام کا ایسا حصّہ بنا کہ اب تو شاید کم ہی لوگ اُن کے اصل نام سے واقف ہوں۔
سنہ 2010 کے دہائی سے اپنی آخری دن تک چوہدری اسلم نے بطور ایس پی، سی آئی ڈی اور انچارج اینٹی ایکسٹریم ازم کرائم خدمات انجام دیں۔
پولیس کی قریباً تیس برس پر مشتمل ملازمت کے دوران وہ ہمیشہ تنازعات اور زبردست اُتار اور چڑھاؤ کا شکار بھی رہے۔
شہرت کا آغاز
چوہدری اسلم کو شہرت یا توجہ تب ملنا تب شروع ہوئی جب وہ سنہ 1992 میں بدترین تشدد کا شکار کراچی میں تھانہ گلبہار تھانے کے ایس ایچ او مقرر کیے گئے۔
یہ وہ دور تھا جب شہر میں خوف و دہشت کا راج قائم تھا۔
نیم فوجی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق یہ وہ دور ہے جب کراچی میں عجیب ماحول تھا۔
’تب کراچی کے کئی علاقوں میں عقوبت خانے (ٹارچر سیل) قائم ہو چکے تھے، مخالفین کا کھلے بندوں اغوا اور قتل ہوتا تھا، ان کی لاشوں کو باقی تمام مخالفین کے لیے عبرت بنا کر بوری میں بند کر کے پھینک دیا جاتا تھا،
زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کیے جاتے تھے، کھمبوں سے لٹکا کر ان کو زندہ اور مردہ ٹکڑے کر دیا جاتا تھا، آری، ہتھوڑے اور چھینی سے کاٹنا، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھونک دینا، گلے کاٹ دینا، زبان کی بنیاد پر شناخت کر کے لوگوں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جانا سب کچھ روز ہوتا تھا۔‘
حال یہ تھا کہ خود پولیس کے سربراہ اور 25 ہزار کی فورس کے کمانڈر ڈی آئی جی شعیب سڈل کی حفاظت کے لیے پولیس کی بجائے نیم فوجی ادارے فرنٹئیر کور (ایف سی) کی نفری بھیجی گئی تھی۔
ہر تنظیم کے کارکن اور ہر سیاسی جماعت و گروہ کے ارکان موت کے اس بھیانک کھیل کا شکار ہوئے۔ شہر بھر میں موت کا رقص جاری تھا۔
بالآخر وزیر اعظم بے نظیر بھٹّو کے دوسرے دور حکومت میں ریاست نے کراچی کی بگڑتی ہوئی اس صورتحال پر قابو پانے کا فیصلہ کیا اور جون 1992 میں سندھ میں پہلے ہی سے جاری آپریشن کلین آپ کا دوسرا مرحلہ ’کراچی آپریشن‘ کے عنوان سے شروع کیا۔
اس آپریشن میں اگرچہ پولیس افسران نے آپریشن کے اہداف حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی مگر خوف اور طاقت کا جواب خوف اور طاقت سے ہی دینے کے اس فیصلے سے پولیس اور سیاسی طور پر متحرک جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جو اگلے کئی برس تک جاری رہی۔
اس دوران انتہائی مشکوک اور متنازعہ ’پولیس مقابلے‘ شروع ہوئے اور ان مقابلوں میں شریک پولیس افسران و اہلکاروں کی لگاتار ہلاکتوں کے ایسے سلسلے کا بھی آغاز ہوا جس نے کراچی کو دنیا کے چند خطرناک ترین شہروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔
حکام نے آپریشن کے دوران کراچی کے ضلع وسطی کو شہر کا سب سے زیادہ حساس علاقہ قرار دیا اور اسی ضلع میں چند سب سے اہم تھانوں میں سے ایک تھانہ گلبہار سمجھا جاتا تھا۔
اور اسی گلبہار تھانے میں چوہدری اسلم کی بطور ایس ایچ او تعیناتی نے اُن کی زندگی کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔
’پولیس مقابلے‘ یا متنازع اور ’ماورائے عدالت ہلاکت‘ سے اُن کا نام جڑنے لگا اور وہ پولیس کے ایسے افسر بن کر ابھرے جن کا نام ہی ’دہشت‘ کی علامت بن گیا۔‘
اُن کی قیادت میں ہونے والے آپریشن کلین اپ کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے سینکڑوں کارکنوں (یا مقدمات میں مطلوب ملزمان) کی ایسی ہلاکتیں ہوئیں جنھیں حکام ‘پولیس مقابلہ’ قرار دیتے رہے اور سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ’ماورائے عدالت ہلاکتیں‘ کہتی رہیں۔
چوہدری اسلم طالبان، لشکر جھنگوی، اور مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والے ان شدت پسند اور انتہا پسند عناصر کے عین سامنے جا پہنچے، اور اب آئے دن اُن کے ہاتھوں ان عناصر اور اُن کی تنظیموں کے شدت پسند ارکان سے چوہدری اسلم کی قیادت میں سی آئی ڈی کے مسلح تصادم کی خبریں آنے لگیں۔
پاکستان بھر کے سیاسی و عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں بھی شدت پسندی کے خلاف ریاستی اداروں کی کارروائی کو سراہا جانے لگا تھا اور متنازع مسلح تصادم پر تنقید کم ہونے لگی۔ اب چوہدری اسلم ولن کم اور ہیرو زیادہ لگنے لگے تھے۔
طالبان اور لشکر جھنگوی نے چوہدری اسلم پر ایک اور وار تب کیا جب 19 ستمبر 2011 کو کراچی کے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقے ڈیفنس میں چوہدری اسلم کے گھر پر حملہ ہوا۔
جمعرات 9 جنوری 2014 کو چوہدری اسلم خود دہشت گردی کا نشانہ بن گئے اور بم سے ہونے والے حملے میں اپنے قریبی ساتھی کامران اور محافظ سمیت ہلاک ہو گئے۔
اس حملے سے چند گھنٹے قبل بھی انھوں نے ناردرن بائی پاس پر منگھوپیر کے علاقے میں ہونے والے ایک مبینہ ’پولیس مقابلے‘ میں تین طالبان شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔
پولیس افسران کے مطابق چوہدری اسلم پر یہ جان لیوا حملہ شام چار بجکر چالیس منٹ کے قریب شہر کے علاقے حسن سکوائر سے متّصل عیسیٰ نگری کے علاقے میں اس وقت ہوا جب چوہدری اسلم اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ڈرائیور کامران اور محافظ کے ہمراہ لیاری ایکسپریس وے سے دفتر کی سمت روانہ ہوئے۔
اگرچہ خطرات کے پیش نظر وہ خود بھی محتاط رہتے تھے اور سرکاری طور پر بھی انھیں بم حملے سے بھی محفوظ رہنے والی گاڑی فراہم کی گئی تھی مگر دھماکے کے وقت چوہدری اسلم کی ’بم پروف گاڑی مرمت کے لیے گئی ہوئی تھی۔‘
اس وقت کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نیاز کھوسو کے مطابق چوہدری اسلم کے حفاظتی قافلے (یا سکواڈ) میں شامل دوسری پولیس موبائل چوہدری اسلم ہی کے لیے دوا خریدنے گئی تھی۔
Comments