کرپشن کی زنجیر اور پولیس
تحریر :-عزیز خان ایڈوکیٹ لاہور
کوٹسبزل تھانہ کی تعیناتی کافی مشکل تھی روزانہ شام چار بجے سے رات دس بجے تک سنگین واردات ہونے کا خدشہ رہتا تھا اور تھانہ کے تمام ملازمین تیار ہوتے تھے کیونکہ سندھ کے بلکل قریب ہونے کی وجہ سے اس تھانہ کی یہی روٹین تھی یہاں چھُٹی بھی بہُت کم ملا کرتی تھی
ایک شام محرر تھانہ نے وائرلیس میسج لاکر میری میز پر رکھ دیا جس پر لکھا تھا کہ مجھے اگلے دن ڈی آئی جی بہاولپور کے پیش ہونا تھا۔وائرلیس میسج میں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں لکھا گیا تھا کسی بھی سب انسپکٹر عہدہ کے پولیس ملازم کے لیے ڈی آئی جی کے پیش ہونا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے یہ صرف محکمہ پولیس میں ملازمت کرنے والے ملازمین ہی جانتے ہیں۔
میں نے اپنے ملازم فدا کو سب سے اچھی یونیفارم تیار کرنے کو کہا۔بوٹ، بیلٹ، کراس بیلٹ اپنی ریر نگرانی پالش کروائے۔ان دنوں ملازمین اچھی یونیفارم پہن کر افسران کے سامنے پیش ہوتے تھے ورنہ اس پر بھی سزا ملا کرتی تھی
مجھے ساری رات نیند نہ آئی۔۔۔بے چینی رہی۔۔۔ سارے سنگین زیر تفتیش مقدمات کی پراگریس رپورٹ بنوائی۔اپنے اچھے کاموں کی فہرست علیحدہ بنوالی۔”سارا لینا دینا بھی یاد کرتا رہا “یہ بھی سوچتا رہا کون سیاستدان شکایت کر سکتا ہے کیونکہ میری کسی سے بھی نہیں بنتی تھی ؟
صُبح چار بجے میں کوٹ سبزل سے بہاولپور کے لیے روانہ ہوگیا۔
صُبح آٹھ بجے میں بہاولپور پُنہچ گیا پولیس لائن میں یونفارم پہنی کیونکہ اتنے لمبے سفر کی وجہ سے یونیفارم خراب ہو سکتی تھی یونفارم پہن کر میں ڈی آئی جی آفس آگیا اور آفس سپریٹنڈنٹ باؤ تاج صاحب کے کمرہ میں بیٹھ گیا باؤ تاج (مرحوم) بھی کمال کی شخصیت تھے۔
دراز قد کے مالک تھے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی ان کی جناح کیپ الماری میں پڑی ہوتی تھی جب بھی جب بھی DIG گے کمرہ میں جاتے سر پہ جناح کیپ پہن لیا کرتے تھے مگر اُن سے کام کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا بہاولپور رینج کے ملازمین اور پروبیشنرز ASI’sکی بروقت ترقیاں نہ ہونے کی ایک وجہ باؤ تاج بھی تھے
ڈی آئی جی صاحب ٹھیک نو بجے دفتر آگئے تھوڑی دیر بعد باو تاج نے اپنی جناح کیپ پہنی ڈائری اُٹھائی اور مجھے دیکھ کر مُسکراتے ہوئے اندر چلے گئے میں نے دل ہی دل میں وہ تمام دعائیں اور آیتیں پڑھنا شروع کر دیں جو مجھے زبانی یاد تھیں۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد باو تاج آگئے کہنے لگے صاحب ابھی مصروف ہیں آپ کو بعد میں بلائیں گے میں نے باؤ تاج سے پوچھنے کی کوشش کی کہ “مجھے کیوں بلایا” لیکن ان کا جواب نفی میں تھا کہ انھیں کچھ معلوم نہیں میں خاموش ہوگیا کیونکہ مجھے یہ بھی تجربہ تھا کہ اگر دفتر والوں کو کسی چیز کے بارے میں علم بھی ہو تو وہ نہیں بتاتے
دوپہر کے ایک بجے میری باری آئی اردلی بھاگتے ہوئے آفس سپریٹنڈ نٹ کے دفتر میں آیا اور بولا” DIGصاحب یاد فرما رہے ہیں “۔۔۔میں نے جلدی سے اپنی یونیفارم درست کی جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھنے کی کوشش بھی کی مگر خوف کی وجہ سے نہ پڑھ سکا۔DIG کے کمرہ کے باہر کھڑے ہوئے لائن آفیسر نے مجھے” جلدی چل” کا حکم دیا میں پریڈ کرتا ہوا کمرہ میں داخل ہوا کمرہ میں داخل ہونے سے پہلے مجھے بتا دیا گیا تھا کہ صاحب کمرہ کہ دائیں طرف بیٹھتے ہیں
جیسے ہی آپکو رکنے کا حکم ملے گا آپ نے رُک جانا ہے پھر دائیں مڑ کا حُکم ہو گا تو آپ نے دائیں مڑ جانا ہے اور سامنے سلام پر سلوٹ کرنا ہے مجھے جیسے ہی” رک” کا حکم ملا میں رک گیا لائن آفسر بولا “دائیں مڑ۔۔۔سامنے سلام!”۔
میں دائیں مڑا اور فوری ڈی آئی جی کو سلوٹ کیا میری نگاہیں نیچے تھیں اور میں DIG کے سامنے مجرم کی طرح کھڑا ہوا تھا۔
اس سے قبل میں نے اُن کو نہ دیکھا اور نہ ہی کبھی ان کے دفتر میں آیا تھا (اُن دنوں ڈی آئی جی ہر موقع پر نہیں جایا کرتے تھے )کمرہ میں خاموشی تھی باؤ تاج بھی اپنی ڈائری لے کر اندر آگئے سٹینو بھی کمرہ میں موجود تھا بس اب صاحب کے بولنے کا انتظار تھا مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی کو پھانسی دینے سے پہلے کا منظر ہو اب مجھے DIGصاحب کے بولنے کا انتظار تھا؟
ڈی آئی جی صاحب نے لائن افسر باؤ تاج اور سٹینو کو باہر جانے کا کہا میں اور بھی ڈر گیا باو تاج اور سٹینو مجھے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کمرہ سے باہر چلے گئے ان سب کے باہر جانے کے بعد مجھے DIG کی آواز سنائی دی “اوئے تو ں پیسے لینا تے اُتے دینا ایں ؟”۔
مجھے ان کی بات سمجھ تو آگئی مگر میں آہستہ سے بولا “میں سمجھا نہیں جناب “میری نگاہیں بدستور نیچے تھیں ڈی آئی جی صاحب پھر بولے “تم پیسے لیتے ہو اور اُوپر والے افسران کو کھلاتے ہو اُن کی باتوں سے میرا گلہ خشک ہورہا تھا سمجھ نہیں آرہی تھی اس بات کا کیا جواب دوں۔ ہاں بولتا تب بھی مرتا۔۔۔۔۔ناں بولتا تب بھی مرتا۔۔۔
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے اپنے حواس جمع کیے اور بولا “سر! مین پیسے ضرور لیتاہوں۔۔۔پر اُوپر نہیں دیتا”۔ DIG صاحب کی گرجدار آواز سُنائی دی بولے “اس بات کی قسم اُٹھا سکتے ہو؟؟”
اب یہ مرحلہ میرے لیے بہت مشکل تھا محکمہ پولیس کے ملازمین اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ تھانہ ہی کرپشن کا اصل منبع ہوتا ہے اور چھوٹے ملازمین کواپنے بڑے افسران کو کسی نہ کسی طریقہ سے پیسے ضرور دینے پڑتے ہیں چاہے وہ نقد ہوں یا تحفہ کی صورت میں ہو اس بات کی قسم تو بلکل نہیں ا ٹھائی جاسکتی تھی کہ کب اور کتنے پیسے کس افسر کو دیے؟
میں نے ہمت کی اور بولا “جی سر! قسم اٹھاسکتاہوں “۔DIGصاحب نے مجھے سے قسم اُٹھوائی اور میں جھوٹی قسم اُٹھا گیا۔مگر میرا ضمیر مجھے ملامت ضرور کررہا کیونکہ ان افسران کے سامنے ضمیر نام کی کوئی چیز ماتحت ملازم کو زیر نہیں کرسکتی۔
ڈی آئی جی صاحب نے مجھے اپنے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا میں ڈرتے ڈرتے اُن کے سامنے پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کسی بھی سب انسپکٹر کا کرسی پر DIG کے سامنے بیٹھنا اور بات کرنا بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے ورنہ کئی ڈی آئی جی صاحبان تو ڈی ایس پی صاحبان کو بھی اپنے دفتر میں کرسی نہیں بیٹھاتے اس بات کا مجھے بھی تجربہ ہے
میں نے سر اُٹھا کر ڈی آئی جی صاحب کی طرف دیکھا نظر کا چشمہ ان کی ناک پر ٹکا ہوا تھا اور وہ مجھے غور سے دیکھ رہے تھے میں نے ایک لمحے کی کے لیے اُن کی طرف دیکھا مجھے ایسا محسوس ہوا اُن کی نظریں نہ ہوں ایکسرے مشین ہوں جو میرا ایکسرے کر رہی تھیں میں نے اپنی نگاہیں پھر نیچے کر لیں۔
وہ بولے” میں تمہیں جانتا ہوں۔۔تمہارا تعلق اچھے گھرانے سے ہے۔۔تمہارا ایک بھائی جج بھی ہیں۔۔۔تمہاری زرعی زمین بھی ہے پھر تم پیسے کیوں لیتے ہو۔۔تمہارا پیسوں کے بغیر گزارا نہیں ہوتا؟؟؟
“میرا ڈر اب کچھ کم ہوگیا تھا میں نے جواب دیا “سر!میرا گزارا ہوسکتاہے مگر آپ کے اور دوسرے دفتر والوں کاگزارا نہیں ہوتا قتل کا ایک مقدمہ کا چالان عدالت میں سینٹ اپ کرنے کے لیے ایک ہزار روپے پراسیکیوٹر کو دینا پڑتا ہے اور اسی طرح باقی مقدمات عدالت میں بھجوانے کے لیے پروسکیوٹرز کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔DIGصاحب جواباََ بولے “قتل کے چالان کے تو تین سو روپے لیتے ہیں “۔
اب میں پرسکون ہوچکا تھا اور میرا اعتماد بحال ہو چُکا تھا بولا”نہیں سر!اب ایک ہزار روپیہ لیتے ہیں “۔
میں نے DIGصاحب کو یہ بھی بتایا کہ ASP یا Dsp کے دفتر کے ریڈر، اردلی SSP کے دفتر ریڈر OASI اردلی اور باقی عملہ اسی طرح DIGآفس کےA/DIG،ریڈر، آفس سپریٹنڈنٹ، اردلی وغیرہ بھی SHO’s سے ماہانہ پیسے لیتے ہیں جنھیں عرف عام میں ” انعام یا مٹھائی “کہا جاتا ہے۔
میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ آپ کے دفتر میں آتے ہوئے ہم اپنے پیسے بٹوئے سے نکال کر اپنی جرُابوں میں چھپا لیتے ہیں کیونکہ آپ کا A/DIGتو ہماری جرُرابوں سے بھی پیسے نکال لیتا ہے DIGصاحب میری اس بات پہ ہنستے ہوئے بولے ” تم رشوت لینا چھوڑ نہیں سکتے؟؟
“میں نے کہا “سر! میں چھوڑ سکتا ہوں مگر میری ایک آؤٹ آف ٹر ن پرموشن کی سفارش ملک اعجاز SSPصاحب نے بھجوائی ہوئی ہے جو آپکے دفتر میں پڑی ہے اگر آپ وہ IGصاحب کو بھجوا دیں تو میں رشوت لینا چھوڑ دوں گا “
۔وہ بولے عباس خان صاحب آئی جی ہیں وہ آؤٹ آف ٹرن پرموشن کے خلاف ہیں انھوں نے کبھی بھی تمہاری پروموشن نہیں کرنی۔ کمرہ کا ماحول بہت اچھا ہوچکا تھا میں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کی جناب میری سنیارٹی کی ایک اپیل آپکے دفتر میں ہے آپ وہ ہی کردیں تو مہربانی ہوگی انھوں نے اس شرط پر کہ میں تین مہینے رشوت نہیں لوں گا میری سنیارٹی کی اپیل منظور کرلی باؤ تاج کو بلوایا گیا جو مجھے کرُسی پر بیٹھے دیکھ کر ششدر رہ گیا ڈی آئی جی فوری طور پر میری سینیارٹی اپنے بیج میٹس کے ساتھ کرنے احکامات جاری کردیے
تھانہ واپس جاکر میں نے جھوٹی قسم اٹھانے پر میں نے خیرات کر دی اگر میں قسم نہ اُٹھاتا تو بقیہ ملازمت کوئی بھی افسر مجھ پر اعتماد نہ کرتا اب میں اس با ت کو کھوجنے کی کوشش کررہا تھا کہ DIGصاحب نے مجھے ہی کیوں بلوایا مگرکچھ دن بعد ایک اور واقعہ سے اس بات کی بات وضاحت ہو گئی کہ مجھے کیوں بلوایا گیا تھا ؟؟
احمد نسیم ڈی آئی جی صاحب نے رحیم یار خان کہ ایک مقدمہ قتل میں SHOکوٹ سمابہ اورDSP صدر رحیم یار کو میری طرح ہی بلوایا گیا ایس ایچ او کوٹسمابہ پر ساڑھے تین لاکھ جبکہ ڈی ایس پی صدر پر ایک لاکھ روپے لینا ثابت کردیا گیا۔
انھیں حکم دیا گیا کہ ایس ایچ او ساڑھے تین کی بجائے سات لاکھ جبکہ ڈی ایس پی ایک لاکھ کی بجائے دولاکھ روپے جمع کروائیں آئیندہ یہ رقم شوکت خانم میموریل فنڈ میں جمع کروائی جائے گی دونوں افسران سے یہ پیسے وصول کیے گئے شوکت خانم ہسپتال کو دیے گئے یا نہیں یہ ایک ایسا راز ہے جو آج تک نہیں کھُل سکا اور نہ کُھل پائے گا-
ان دونوں افسران کو دھمکیاں دی گئیں کہ وہ ملک اعجاز (مرحوم)کے خلاف اس بات کی گواہی دیں کہ وہ ان سے رشوت لیتے ہیں یا پھر رقم کی ادائیگی کریں ان دونوں افسران نے بھی اپنے SSP کے خلاف بیان نہ دیا اور رقم ادا کردی سات لاکھ بھرنے کے باوجود سب انسپکٹر کو DIG نے ایک اور مقدمہ میں نوکری سے برخواست کردیا۔
دراصل DIGصاحب اور SSP رحیم یار خان کے درمیان کسی بات پہ سرد جنگ جاری تھی۔وہ ایس ایس پی کے خلاف کوئی ایسا ثبوت ڈھونڈنا چاہتے تھے جس سے وہ ان کے خلاف رپورٹ بنا کر افسران بالا کو بھجواسکیں۔
محکمہ پولیس میں افسران کی آپس کی جنگ میں ہمیشہ ماتحت بلی کا بکرا بنتے ہیں۔
بغیر رشوت کے پولیس کا یہ سسٹم چل ہی نہیں سکتا۔محرر تھانہ سارا دن ہرکام میں پیسے لینے کے کوشش میں ہوتا ہے کیونکہ اس نے تھانہ کی سٹیشنری، ایس ایچ او کے دفتر کے اخراجات براداشت کرنے ہوتے ہیں اسی طرح وہ دفتر ڈی ایس پی دفتر ایس ایس پی ، تک ماہانہ پیسے ادا کرتاہے۔
تفتیشی افسران چالان سنیٹ اپ کروانے کے پراسیکیشن برانچ کو ہزاروں روپے دیتے ہیں ایس ایچ او کو اس کا حصہ دیتے ہیں جبکہ ایس ایچ او ان میں سے ڈی ایس پی کو دیتا ہے بعض ایس ایچ او ڈی پی او کے منظور نظر بھی ہوتے ہیں اور براہ راست ان کو “فٹیک “دیتے ہیں
مگر آجکل فنڈز کھانے کا طریقہ افسران میں عام اور آسان ہے کیونکہ اس سے بدنامی بھی نہیں ہوتی اور ایمانداری بھی قائم رہتی ہے یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بیروکریٹس سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھیں بند ہیں کیونکہ اُنہیں یہ لگتا ہے اگر اس نظام کو تبدیل کر دیا گیا تو اُن کی حکمرانی ختم ہو جائے گی
پولیس کا محکمہ ٹھیک ہو سکتا ہے اگر ارباب اختیار چاہیں تو مگر وہ ایسا کبھی نہیں چاہیں گے
Comments