ایک دلچسپ و سبق آموز حقیقی واقعہ
سعودی عرب کے شگفتہ مزاج خطیب جناب “سلیمان الجبیلان” کا ایک اور خوبصورت واقعہ سنیئے،
ایک بار میں اپنی کار میں دو دیگر علماء کرام کے ساتھ کہیں سفر میں تھا، ایک مقام پر ایک بوڑھا ساربان سڑک کنارے اپنی جیپ میں بیٹھا اپنے اونٹوںکو سڑک کی دوسری طرف ہانک کر بھیج رہا تھا۔
لامحالہ بریک لگا کر رکنا پڑا۔ سب کچھ ٹھیک رہا مگر ایک بھاری بھرکم اونٹ خراماں خراماں چلتے چلتے سڑک کے بیچوں بیچ آکر مزید سست رفتار ہو گیا۔
مولوی کا تصور ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے‘
میں نے محض اس وجہ سے کہ، بس اونٹ بدکے بنا چلتا رہے، ہلکا سا ہارن 2 بار(بیب بیب – بیب بیب) کرکےبجادیا۔یہ کوئی اتنی معیوب حرکت بھی نہیں تھی
مگر نجانے اس پر بوڑھا ساربان کیوں اتنا غصہ کر گیا کہ مجھے گالیاں دینا شروع کر دیں: لعنت تیرے باپ پر، تو ہوتا ہے کون ہے میرے اونٹ پر ہارن بجانے والا، لعنت تجھے پیدا کرنے والی پر، اور نجانے اس نے میرے خاندان کےکس کس فرد کو ملعون ٹھہرایا،
شاید سب پر ایک ایک کرکے لعنت بھیج ڈالی۔
بڑے ادب کے ساتھ بجائے ہوئے ہلکے سے اس ہارن کے بدلے میں اتنی گالیاں بالکل نہیں بنتی تھیں، بلکہ جس ردھم کے ساتھ میں نے ہارن بجایا تھا اس کا تو شاید مطلب بھی یہی بنتا تھا کہ اونٹ جی چلتے رہو، اونٹ جی چلتے رہو۔ اور اس کا بدلہ یہ ملا تھا۔
مدینہ منورہ کے کبوتروں کا گُنبدِ خضریٰ سے عشق کا عالم
میں نے انتہائی خوفناک تیور بنا کر زور سے کار کا دروازہ کھولا اور باہر نکل کر پوری قوت کے ساتھ دھڑام سے بند کرکیا۔ میرے ساتھی علماء کرام میں جناب شیخ صالح صاحب نے گھبراتے ہوئے پوچھا؟
کیا پریشانی پیدا کرنے جا رہےہو؟
میں نے کہا؛ گھبرائیے نہیں، آپ کو کچھ نیا کر کے دکھاتا ہوں۔
مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل صاحب کون ہیں؟
میں بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے، اپنی قمیض کے بازو اوپر کو چڑھاتے لپیٹتے ہوئے جیپ کی طرف گیا۔ بوڑھا بدو میرے تیور دیکھ کر بہت زیادہ گھبرا چکا تھا اور اس کی حالت پوری طرح ڈانواں ڈول ہوتی دکھاتے دے رہی تھی۔
میں نے جھٹکے سے اس کی جیپ کا دروازہ کھولا اور اور اُس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئےکہا؛ بزرگو، مجھے معافی دیدو، مجھے لگتا ہے کہ میں نے آپ کے اونٹ کے ساتھ بے ادبی کرکے اسے ناراض کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آپ کے اونٹ کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی ناراض کیا ہے۔ اللہ آپ کو بہت اچھی جزا دے، مجھے معاف کر دیجیئے۔
اس نے مجھے شکر کرنا سکھا دیا تھا
بوڑھے کیلئے یہ ایک نیا جھٹکا تھا، شرمساری اور خجالت کےمارے برا حال، اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا؛ میں نے تجھ پر، تیرے ماں باپ پر اور تیرے سارے خاندان پر لعنت بھیجی ہے اور تو الٹا میرے سر پر بوسہ دے رہا ہے اور مجھ سے معافی مانگ رہا ہے۔ مجھے نہیں، تجھے ناراضگی ہوئی ہے، مہربانی کر، مجھے معاف کر دے۔
بابا فرید گنج شکر کا ایمان افروز واقعہ
میں نے کہا؛ اللہ کی قسم، میں تو تجھے قیامت تک معاف نہیں کرونگا، تو نے مجھے اور میرے خاندان کو جتنی گالیاں دیں ہیں، اُن سب کی معافی کا تو بس اب ایک ہی طریقہ بچا ہے کہ اگر تو میری ایک شرط مان لےتو؟
بہشتی دروازے کی حقیقت میں کتنی سچائی ہے؟
بوڑھے نے کہا؛ میں حاضر ہوں، بتا تیری کیا شرط؟
مین نے کہا؛ میری یہ شرط ہے کہ تو ہم سب کو اپنی اونٹنیوں کا دودھ پلایا بوڑھے نے کہا؛ بخدا یہ تو کوئی بڑی شرط نہیں ہے، میں بالکل حاضر ہوں۔
تنخواہ کو مہینے کی آخری تاریخ تک بچانے کا نسخہ
اور جلدی سے جیپ سے اُتر کر نیچے زمین پر قالین بچھایا، گدے نکال کر لگائے، میں نے اپنے ساتھیوں سے نیچے آنے کو کہا، اور ہم سب بیٹھ گئے۔
بوڑھے نے جیپ کا ہارن بجا کر دور کھڑے اپنے خادم کو بلا کر ذمے لگایا کہ جلدی سے اونٹنیوں کا دودھ نکال کر لائے اور ہم سب کو پلائے۔
ضمیر کی آواز پر پارٹی تبدیل کرنے کا موسم
میرے پوچھنے پر کہ تجھے شعر کہنا آتے ہیں تو اس نے ہمیں بدوی ادب کے ڈھیروں شعر سنا ڈالے۔ یہ محفل آدھا گھنٹہ جمی اور ایسا ماحول بنا کہ جیسے ہم برسوں کے واقف کار ہوں۔ یقینی بات ہے باتوں باتوں میں بوڑھا بھی جان چکا تھا کہ ہم کون لوگ ہیں۔
روزے کے دوران ہمارے جسم کا دلچسپ ردعمل کیا ہوتا ہے
آدھے گھنٹے کے بعد جب ہم نے اجازت لیکر اٹھنا چاہا تو بوڑھے نے ہم تینوں کی قمیضیں پکڑ لیں، کہنے لگا؛ اللہ گواہ ہے مجھے تم لوگوں سے پیار ہو گیا ہے۔ میں تم لوگوں کو ایسے نہیں جانے دونگا۔
میں نے بوڑھے سے کہا؛ ہمیں پہلے بھی بہت دیر ہو چکی ہے، کھانا وغیرہ بشرط زندگی پھر کسی وقت پر اٹھارکھتے ہیں، تو بس ہمیں اجازت دیدے۔
محمود بُت شکن کی توحیدی غیرت جوش میں آئی
بوڑھے نے اپنے اونٹوں کے پیچھے بہت دور (اونٹ ڈیڑھ سو سے زیادہ تھے) گہرے پردے میں ڈھپی چھپی تین لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ وہ دیکھو؛ وہ میری تین بیٹیاں ہیں، تم تینوں عالم فاضل لوگ ہو، مجھے عزت بخشو اور ایک ایک سے نکاح کر لو۔
حاضرین کرام: کیا خیال ہے پھر، گالیوں کے بدلے میں ایک نہیں تین تین رشتے۔ یہ اس لیئے ہے کہ “نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست (سورة فصلت-34)”
اولاد پیداکرنےوالے جرثوموں کی تعدادبڑھانے کا طریقہ
اس سارے قصے کا ایک اور خاتمہ (اینڈ) بھی ہو سکتا تھا کہ جب بوڑھے نے مجھے گالیاں دی تھیں، میں بھی باہر نکل کر اُسے للکارتے ہوئے کہتا؛ ارے او بڈھے شیطان، تو میرے ماں باپ پر لعنت بھیجتا؟
بوڑھے نے اپنی جیپ کی نشست کے نیچے جو کلاشنکوف رکھی ہوئی تھی نکال کر مجھے ایک برسٹ مارتا اور اس فتنے کا ایسا سیاہ خاتمہ ہو جاتا۔
Comments