مرد مرد کے ساتھ سیکس کیسے کر سکتا ہے‘
کریم الاسلام
سال18،19 کا ایک لڑکا کمرے میں داخل ہوا اور چلتا ہوا بستر کے قریب آ کر رُک گیا۔ پھر وہ بیڈ پر موجود چار سالہ بچے کے ساتھ آ کر لیٹ گیا۔
لڑکا بچے کے پوشیدہ حصوں کو چُھوتا ہے اور پھر اُس کے ساتھ جنسی عمل کرتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ اُسی طرح کمرے سے باہر چلا جاتا ہے جیسے داخل ہوا تھا۔جب صبح میری امی اور ابو دفتر چلے جاتے تھے تو پھر ہمارا ملازم میرے ساتھ (جنسی عمل) کیا کرتا تھا۔ یہ کام وہ ہر دوسرے تیسرے دن کرتا تھا۔ یہ سلسلہ آٹھ سال چلا۔‘اُس وقت وہ اتنے کم عمر تھے کہ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ وہ اِس سب کو کوئی نام نہیں دے پاتے تھے۔
’وہ ملازم مجھے کہا کرتا تھا کہ یہ بالکل نارمل ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں یہ سمجھتے ہوئے بڑا ہوا کہ ایسا سب بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ہر بچے کا ایک راز ہوتا ہے جو وہ کسی دوسرے کو نہیں بتاتا۔‘
اُن کے ساتھ یہ سلوک کرنے والا صرف ایک ملازم نہیں تھا بلکہ اُس عرصے میں ایک کے بعد ایک کئی افراد ملازم رکھے گئے تھے۔’ہوتا یہ تھا کہ جب ایک ملازم جانے لگتا تھا تو وہ اپنی جان پہچان کے دوسرے شخص کو رکھوا دیتا تھا۔‘ یوں ان کے مطابق جنسی استحصال کا سلسلہ بھی چلتا رہتا تھا۔
ملازم کہتے تھے کہ ماں باپ سے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ہے۔ میں بھی ڈرتا تھا کہ کہیں وہ والدین کو کچھ نا بتا دیں۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید میں ہی کچھ غلط کر رہا ہوں۔‘ جنسی عمل کرنے والے لوگ اُن کے دماغ میں یہ بات ڈالتے تھے کہ یہ سب کچھ وہ خود کرنا چاہتے ہیں اور یہ عمل اُن کی جنسی تسکین کے لیے کیا جا رہا تھا۔
اپنی تصاویر کسی کو مت بھیجیں |
اس نے تیر کمان میں چڑھایا کر چلہ کھینچا اور نشانہ لیا |
Guy start an madrisa in islamabad |
زبان میں لکنت یاہکلاہٹ کا علاج |
‘مجھے یاد ہے ہر دفعہ میں واش روم جا کر بار بار اپنے آپ کو صاف کیا کرتا تھا۔ مجھے یہ گمان ہو گیا تھا کہ شاید میں ناپاک ہو گیا ہوں۔‘
آٹھ کیسز روزانہ
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں بچوں سے جنسی استحصال کے 1489 کیسز رپورٹ ہوئے۔
’بچوں سے جنسی ہراسانی کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کمزور ہوتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہراسانی کرنا نہایت آسان ہے۔ لیکن ہراسانی کے کیسز کی تعداد میں اضافہ اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب ایسے واقعات کو زیادہ رپورٹ کیا جا رہا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔‘
بچوں کے جنسی استحصال کی کیا نشانیاں ہیں؟
ماہرین کے مطابق جنسی ہراسانی یا استحصال کا بچوں پر سب سے پہلا اثر رویوں میں تبدیلی کی صورت میں نظر آتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ بچوں کی عادات و اطوار پر مسلسل نظر رکھی جائے۔ ماہرِ نفسیات عمارہ بتول کے مطابق ہراسانی کا شکار بچہ
اکثر کھویا کھویا رہنا شروع کر دیتا ہے اور اُس کی خود اعتمادی بھی متاثر ہوتی ہے۔
’بچوں کو ’گُڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ کے بارے میں بتایا جانا چاہیے۔ بچے کو یہ سمجھانا چاہیے کہ کسی غیر کا اُنھیں گُدگدی کرنا، گلے لگانا یا چومنا کس حد تک نارمل ہے اور کہاں وہ ضرورت سے زیادہ ہو کر ہراسانی کے زمرے میں آ جاتا ہے۔‘
’بچے میں شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسے بچے رشتے نبھانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ مثلاً وہ دوست بنانے سے کتراتے ہیں اور دوسروں پر اعتماد کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔‘’مثلاً اگر بچہ اپنے کھلونوں کے ذریعے مختلف جنسی ایکٹس تخلیق کر رہا ہے یا اگر وہ اپنی عمر سے زیادہ جنسی رویوں کے بارے میں معلومات رکھتا ہے تو یہ بھی ایک نشانی ہو سکتی ہے کہ اُس کے ساتھ جنسی استحصال ہو رہا ہے۔‘
زندگی بھر کا روگ
ماہرین کے مطابق بچوں کو تحفظ کا سب سے مضبوط احساس ماں باپ کی طرف سے ملتا ہے۔ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بچے کے ساتھ وقت گزاریں اور ایسا ماحول تشکیل دیں کہ وہ ایک بار پھر اُن پر اعتماد کر سکے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کو باور کروائیں کہ اُس کی بات سُنی جائے گی اور اسے ہراسانی کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا جائے گا۔
’اگر مجرم بچے کے آس پاس موجود ہے جیسا کہ گھر میں یا سکول میں تو والدین کو چاہیے کہ یا تو اُس شخص کو وہاں سے ہٹا دیا جائے یا پھر بچے کو۔ اگر ایسا ممکن نا ہو تو یہ یقینی بنایا جائے کہ بچے کا اُس شخص سے آمنا سامنا ہمیشہ کسی بڑے کی نگرانی میں ہو۔
سزا ضروری ہے‘
بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی ہراسانی سے نمٹنے کے لیے مناسب قوانین موجود ہیں، اصل مسئلہ اِن قوانین پر عمل درآمد ہے۔منیزے بانو سمجھتی ہیں کہ بچوں سے ہراسانی یا ان کے استحصال کے موضوع پر پاکستان میں اب بھی بات نہیں کی جاتی۔
’ہمارے یہاں اکثر والدین یا گھر کے دیگر افراد ایسے واقعات پر بات کرنے اور اُنھیں رپورٹ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ لوگ بدنامی سے ڈرتے ہیں۔ پھر اگر ہراسانی کرنے والا رشتہ دار ہو تو لوگ گھبراتے ہیں کہ تعلقات خراب ہو جائیں گے اور خاندانی دشمنیاں جنم لیں گی۔‘
چوں سے جنسی ہراسانی کی سزا ایسی ہو کہ جرم کرنے والا اِس کا ارتکاب کرنے سے پہلے دس بار سوچے۔’قوانین پر سخت عملدرآمد ہونا چاہیے۔ جن لوگوں پر یہ جُرم ثابت ہو جائے اُن کی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ ایک سیکس افینڈرز رجسٹری ہو تاکہ ایسے لوگوں ہر نظر رکھی جا سکے۔‘
Comments