خسرو بختیار، ہاشم جواں بخت کو کام سے روکا جائے، سپریم کورٹ میں درخواست دائر
تحریر :-عزیزخان ایڈوکیٹ لاہور
وفاقی وزیر برائے اکنامک افیئرز خسرو بختیار اور صوبائی وزیر ہاشم جواں بخت کو کام سے روکنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے
۔درخواست محمد احسن عابد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی۔
درخواست میں وزیر اعظم ، چیئرمین نیب، ڈی جی نیب ملتان، ڈی جی نیب لاہور کو بھی فریق بنایا گیا ہے ۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ خسرو بختیار نے 100 ارب سے زائد کے اثاثہ جات کو چھپایا ہے۔ انہوں نے اپنے 6 گھر، 80 کروڑ کے ترسیلات زر اور 6 شوگر ملیں بھی ظاہر نہیں کیں۔
درخواست گزار کے مطابق خسرو بختیار نے اپنی 5 پاور جنریشن کمپنیوں کو بھی چھپایا،
انہوں نے الیکشن کمیشن میں 20 کروڑ کے اثاثہ جات کو ظاہر کیا۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ رحیم یار خان سے خسرو بختیار کے حلقے کے ووٹر ہیں اور انہوں نے نیب میں ان ک کے خلاف درخواست دی تھی۔انہوں نے درخواست میں مزید کہا ہے کہ نیب ملتان نے ان کی شکایت کی ویریفیکیشن کر کے رپورٹ چیئرمین نیب کو دی جس میں انکشاف ہوا کہ خسرو بختیار اور ان کے خاندان کے پاس ممبر قومی اسمبلی بننے سے پہلے 5702 کنال کی زرعی اراضی تھی جو کہ پورے خاندان کا واحد ذریعہ کفالت تھا۔
درخواست گزار کے مطابق 2004 میں کابینہ میں شمولیت کے بعد خسرو بختیار کے اہلخانہ کے نام پرمذکورہ اراضی سے آمدن اربوں روپے تک پہنچ گئی۔
نیب کی رپورٹ کے مطابق خسرو بختیار نے اپنی والدہ ، بھائیوں اور بیویوں کے نام پر 4 شوگر ملز، 5 پاور جنریشن کمپنیاں ، 4 انویسٹمنٹ کمپنیاں اور ایک ایتھانول پراسیسنگ کمپنی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی نیب ملتان کی رپورٹ کے مطابق خسرو بختیار کی زرعی اراضی 5702 کنال سے بڑھ کر 7780 کنال ہوئی اور گھروں اور پلاٹس کی تعداد بھی 6 سے 7 ہو گئی۔
نیب رپورٹ کے مطابق خسرو بختیار کے خاندان نے 2011 سے 2018 تک 797 ملین روپے کی ترسیلات زر وصول کیے جبکہ ایف بی آر کے گوشواروں میں بھی خاندان کے اثاثوں میں مسلسل اضافہ ظاہر ہو رہا ہے ۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ نیب رپورٹ کے مطابق اس وقت خسرو بختیار کے اثاثے 100 ارب روپے سے زائد ہیں ۔سپریم کورٹ میں دائر کی گئی
درخواست میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے متعدد درخواستیں چیف جسٹس آف پاکستان، چیئرمین نیب، لاہور اور ملتان نیب کے ڈی جیز کو دیں تاہم ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی کیونکہ خسرو بختیار اپنا سیاسی اثرو رسوخ نیب پر استعمال کر رہے ہیں ۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حلیم خان کے خلاف نیب تحقیقات کے دوران انہیں سٹیپ ڈاﺅن کرایا گیا تھا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ خسرو بختیار اور ان کے بھائی ہاشم جواں بخت کو بھی کام سے روکنے کے لیے احکامات جاری کیے جائیں .
دیکھیں اب سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہےعمران خان کی حکومت پر مہنگائی کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا الزام اُس کے ارد گرد بیٹھے اُن افراد کا ہے جن کی جائیدادیں بھی اُسی رفتار سے بڑھی ہیں جس طرح اُن اپوزیشن کے سیاستدانوں اور بیروکریٹس کی بڑھی ہیں
جو نیب کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں مگر وہ لوگ جو پی ٹی آئی کی چھتری کے نیچے ہیں اُن کا کوئی محکمہ کُچھ نہیں کر سکتا-
پاکستان کی اور پاکستان کی عوام کی ہمیشہ یہی بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے ادارے ہمیشہ حکومت کے غلام رہے ہیں اور ان کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے سیاست میں مخالفین پر جھوٹے مقدمات درج کروانا حکومتی ارکان کا مرغوب مشغلہ رہا ہے
جو ان اداروں کے ذریعے کروائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر کرپشن کرنے کی وجہ سے کسی پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو وہ اُس کو سیاسی انتقام کہتا ہے اور اب اس بات کی تفریق ہی نہیں رہی
کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں پر درج کیے گئے مقدمات سیاسی انتقام ہیں یا حقیقت پر مبنی ہیں ہماری آنکھوں کے سامنے جو افراد دیکھتے دیکھتے کُچھ سالوں میں اربوں پتی اور کروڑوں پتی بن گئے ہیں ان سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ یہ دولت کہاں سے آئی ہے اور اگر کوئی پوچھتا ہے.
تو وہ سیاسی انتقام کی رٹ لگا دیتے ہیں ان میں سے اکثر صرف اس لیے پارٹیاں تبدیل کر کے ہمشہ حکومتی پارٹیوں میں شریک ہو جاتے ہیں تاکہ اُن سے کرپشن کے بارے میں کوئی نہ پوچھ سکے جب تک ان لوٹوں کی تبدیلوں کا سفر جاری رہے گا اور ادارے حکومتی پارٹی کے غلام رہیں گے
نہ تو وطن عزیز میں ترقی ہو گی نہ کرپشن ختم ہو گی.
بس یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا
Comments