“توہین عدالت “
130 نمبر کے کھلاڑی
تحریر:-عزیزخان ایڈوکیٹ لاہور
دوسری جنگ عظیم جاری تھی جرمن جہازوں کے حملوں سے بہت سا جانی نقصان بھی ہو رہا تھا ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے
ان ابتر حالات میں ایک شخص نے چرچل سے ملک کی صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا توچرچل نے پوچھا،”کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں“۔
اسے بتایا گیا کہ عدالتوں میں جج موجود ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔
چرچل نے کہا کہ “رب کا شکر ہے، جب تک عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا” تاریخ گواہ ہے مشکل حالات میں جب جج صاحبان عدل و انصاف کرتے نظر آتے ہیں تو وہ تاریخ کو دھراتے ہیں یا پھر تاریخ رقم کرتے ہیں۔
دو عورتیں اور قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت
مگر ہمارے وطن عزیز میں اُلٹی گنگا بہتی ہے
کیا ہمارے ملک میں عام آدمی کو انصاف مل رہا ہے کیا ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں.
یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں گردش کرتا ہے مگر اس کا جواب دینا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ہمارے نظام انصاف کی ایک اور خوبی بڑی نمایاں ہے
جب کوئی بااثر یا مالدار شخص عدالت سے رجوع کرتا تو ہماری عدالتیں نہ تو چھٹی دیکھتی ہیں نہ وقت بلکہ اُن کے دروازے رات بارہ بجے بھی کھل جاتے ہیں سالوں کے فیصلے دنوں اور دنوں کے فیصلے گھنٹوں میں ہو جاتے ہیں.
Gilgat court announced hang for rapist a women
ویسے تو معزز جج صاحبان کے متنازعہ فیصلوں سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے مگر ذولفقار علی بھٹو کی سزائے موت اور پرویز مشرف کی حکومت کو دیا جانے والا نظریہ ضرورت والا فیصلہ خاص طور پر قابل ذکر ہے.
منڈی بہاوالدین کے ایڈیشنل سیشن جج وارث علی صاحب نے تو کمال کردیا خلع کے ایک کیس کی اپیل میں پہلے تو عائشہ نامی خاتون کو ریسپانڈنٹ خاوند کے ساتھ اہلمد کے کمرہ میں برائے مصالحتی اکیلا بند کردیا.
شادی کی پہلی رات بتا دیامیں حق زوجیت ادانہیں کر سکتا
ایک گھنٹہ الگ رہنے کے باوجود جب ناراض میاں بیوی کی صُلح نہ ہوسکی تو جج صاحب نے خاوند ذیشان مختیار کو حُکم دیا کہ اپنی بیوی عائشہ اور بچے کو بازار شاپنگ کرانے لے جائے .
عائشہ کے شور مچانے کے باوجود کہ وہ نہیں جانا چاہتی جج صاحب نے اُسے زبردستی بازار بھجوا دیا واپسی پر عائشہ نے جج صاحب کو بتایا کہ ذیشان نے اُسے کوئی شاپنگ نہیں کروائی بلکہ دھمکیاں دیتا رہا.
اب جج صاحب نے پھر عائشہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے خاوند کی ساتھ چلی جائے انکار پر جج صاحب نے اظہار ِ ناراضگی فرماتے ہوئے تاریخی جملہ فرمایا جو کسی بھی عدالت کے شایانِ شان نہیں ہو سکتا.
Wife of prophet Islam Bibi Khadija
جج صاحب نے فرمایا “اگر آپ دوران آبادی اسکی ٹانگیں نیچے نہ آنے دیتے تو آج یہ جانے سے انکار نہ کرتی”
جج صاحب کے ان الفاظ سے جو بھری عدالت میں کہے گئے ہمارے معاشرتی نظام کا وہ مکروہ چہرہ سامنے آتا ہے جو عورت کو اپنے پاوں کی جوتی سمجھتا ہے.
کراچی سے لڑکی کو نامعلوم افراد اغواء کرکے صادق آباد لے آئے
عائشہ نے چیف جسٹس پنجاب ہائیکورٹ کو ایڈیشنل سیشن جج منڈی بہاوالدین کے خلاف ایک درخواست بھی دی ہے دیکھیں اُسکا کیا ہوتا ہے.
بہاولپور کے ایک جج صاحب شراب پینے اور زنا کرنے کو جرم ہی نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی اس جرم کے ملزمان کو سزا دیتے تھے اس بات کا وہ عدالت میں سب کے سامنے برملا اظہار بھی کرتے تھے کیونکہ وہ خود شراب پینے اور زنا کرنے کے عادی تھے .
حکومتی ایوانوں سے بزنس کلاس اس کے ٹھمکوں کی زد میں تھے
ہماری عدالتیں کیسے انصاف کریں کیونکہ ہم سب اسی معاشرے کے رہنے والے ہیں جج صاحبان پولیس افسران بیروکریٹس جنرل صاحبان جرنلسٹ اور سیاستدان سب ہمارے اسی معاشرے اور کرپٹ نظام کا حصہ ہیں جو اُس جرم کو جرم ہی نہیں سمجھتے جو وہ خود کرتے ہیں ہر کسی کی ایک قیمت ہے جس میں وہ بک جاتا ہے.
غربت اور جہالت کے ہشت پا سے کب آزاد ہوں گے؟
کوئی دولت سے کوئی سفارش سے اور کوئی مجبوری میں
انصاف کرنے میں ہمارے ملک کی عدلتیں دنیا میں ایک سو تیس نمبر پر آ گئ ہیں اور اس نمبر پر آنے کے لیے سالوں کی محنت درکار ہے جناب ایک دن میں یہ معجزے نہیں ہوتے🤔



Comments