گھوڑوں کا سوداگر
اللہ بخشے والد مرحوم ایک واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کیوں، لیکن جب بھی یہ واقعہ یاد آئے،
آنکھوں سے آنسو آپ ہی آپ رواں ہو جاتے ہیں.
– بظاہر اس چھوٹے سے واقعے میں کوئی اخلاقی سبق بھی نظر نہیں آتا، لیکن آخری سطور پڑھ کر آپ کو لگے گا –
کہ کسی نے آپ کا کلیجہ مٹھی میں پکڑ کر بھینچ دیا ہے.
یہ واقعہ والد صاحب کی زبانی سنیے:
-آدھی رات کا عمل ہوگا، ہماری بس سرگودھا کی جانب رواں دواں تھی
-کہ ایک مقام پر سڑک کنارے گاڑی کی ہیڈلائٹس میں عجیب منظر نظر آیا، میں چونکہ ڈرائیور کے پاس والی نشست پر بیٹھا تھا،
اس لیے اس منظر کو صاف دیکھ سکتا تھا۔
ڈرائیور نے بھی شاید اسے دیکھ لیا تھا، اس کے پائوں میکانکی انداز میں بریک پر دبتے چلے گئے۔
بس ایک جھٹکے سے رُکی تو بیشتر مسافر بھی اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے گاڑی یوں اچانک ایک ویران شاہراہ پر روکے جانے کا سبب دریافت کرنے لگے۔ جلد ہی باقیوں نے بھی وہ عجیب منظر دیکھ لیا۔
کچھ نے تو ڈرائیور کو مشورہ بھی دیا کہ اس سڑک پر ڈاکو اکثر گاڑیوں کو لوٹتے رہتے ہیں، لہٰذا گاڑی آگے بڑھا دی جائے ۔
لیکن ڈرائیور تب تک نیچے اتر چکا تھا۔ میں اور چند دیگر افراد بھی اس کے پیچھے پیچھے سڑک کنارے بیٹھے اس شخص کی جانب بڑھ گئے جس کی گود میں کوئی انسان لیٹا ہوا تھا۔
قریب پہنچنے پر ہمیں ایک شدید دھچکا لگا، ایک لمبے تڑنگے شخص نے خون میں لت پت ایک انسان کو اپنی گود میں لٹا رکھا تھا،
پاس ہی دو نالی بندوق رکھی تھی، کچھ دور ایک گھوڑا کھڑا تھا۔ ڈارئیور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ لمبے تڑنگے شخص نے بین کرنے والے انداز میں اپنا چہرہ پیٹنا شروع کر دیا۔
اس کی پگڑی پہلے ہی کھل کر اس کے گلے میں حمائل تھی۔
گود میں لیٹا شخص پتا نہیں کب کا مر چکا تھا۔ ڈرائیور نے پاس بیٹھ کر حقیقت جاننا چاہی، پہلے تو ہمارے سامنے موجود شخص کی آواز ہی نہ نکلی،
لیکن جب اس نے آہستہ آہستہ اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سنایا تو شاید ہی وہاں موجود ایک بھی شخص ایسا رہا ہو جس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نہ نکل پڑے ہوں.
وہ ایک معمولی راہزن تھا اور حسب سابق شکار کی تلاش میں نکلا تھا کہ اسے کچھ دور سڑک پر ایک سایہ سا متحرک نظر آیا۔
راہزن کی آنکھیں اسے دیکھ کر چمک اٹھیں، وہ ایسے ہی اکیلے مسافروں کو اپنی دو نالی بندوق سے دہشت زدہ کر کے لوٹ لیا کرتا تھا،
جیسے ہی اس نے گھوڑا آگے بڑھایا، سڑک پر متحرک سایہ بھی شاید خطرہ بھانپ کر وہاں سے دوڑ پڑا۔
اب تو راہزن کو یقین ہو گیا کہ ضرور اس کے پاس کوئی قیمتی شے ہے جس کی حفاظت کے پیش نظر وہ یوں بھاگ اٹھا ہے۔
کہاں ایک گھڑ سوار اور کہاں ایک پیدل مسافر؟
جلد ہی راہزن اس ہانپتے کانپتے انسان کے سر پر موجود تھا۔
مسافر کی بغل میں ایک پوٹلی تھی اور ایک تھیلا کندھے پر تھا۔
راہزن کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ پوٹلی میں کوئی قیمتی شے تھی۔
اس نے آگے بڑھ کر پوٹلی چھیننے کی کوشش کی تو مسافر گھگھیاتے ہوئے بولا:
’’خدا کے لیے اسے مت چھینو!‘‘
’’پوٹلی مجھے دے دو ورنہ گولی مار دوں گا۔‘‘
راہزن بندوق سیدھی کرتے ہوئے بولا ۔
مسافر نے لرزتے ہاتھوں سے پوٹلی اپنے پیچھے چھپا لی، اب تو راہزن کو یقین ہو گیا کہ ضرور وہ کوئی قیمتی چیز چھپا رہا ہے،
اس کا تجسس اس کی زبان پر آگیا اور اس نے حیرت سے پوچھا:
’’کہاں سے آرہے ہو اور کیا ہے اس پوٹلی میں؟‘‘
’’مجوکا میں جو میلہ لگا ہے، وہاں سے آرہا ہوں ، پورے دن میں صرف تین گھوڑے بِکے ہیں۔
‘‘ وہ بے چارا شاید اس سے آگے بھی کچھ کہتا لیکن موت کے ظالم وار نے اسے مہلت نہ دی،
راہزن کی بندوق سے یکے بعد دیگرے دو ارغوانی شعلے مسافر کی چھاتی کو پھاڑتے ہوئے نکل گئے۔
تین گھوڑوں کا سن کر اس کی انگلی نے خود بخود ہی لبلبی پر دباؤ بڑھا دیا تھا،
ایسا شاندار موقع بھلا وہ کیسے جانے دیتا، مسافر کو مار کر اس کی رقم چھننے کے سوا اس کے پاس کوئی چارا بھی نہ تھا،
لاش ویرانے میں پھینک کر وہ کئی دن سکھ چین سے گزار دیتا۔
لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
وہ اب اپنے شکار کی لاش گود میں لٹائے سڑک کنارے پولیس کا منتظر تھا تاکہ وہ اسے گرفتار کر لے۔
ہم سب حیران تھے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ایک سفاک قاتل اپنے شکار کی جمع پونجی لے کر رفو چکر ہونے کے بجائے اس کی لاش گود مں لٹائے مکافات عمل کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا؟
اور پھر ہمیں جواب مل گیا، راہزن نے پوٹلی ہمارے سامنے کھول دی، اس میں چند سکے اور ایک روٹی پر رکھا خشک اچار تھا۔
ابھی ہم اس منظر کو حیرت سے دیکھ ہی رہے تھے کہ راہزن نے مقتول مسافر کا سامان والا تھیلا بھی ہمارے سامنے سڑک پر الٹ دیا۔
مٹی سے بنے دوسرے بےقیمت کھلونوں کے درمیان گھاس پھونس، کپڑے اور بانس کے تنکوں سے بنے دو گھوڑے ہم سب کو رُلانے کے لیے کافی تھے۔
Comments