انمول خزانے خوابیدہ وارث
سال 1610 میں ہالینڈ نے ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ انڈونیشیا پر قبضہ کرلیا.
اس قبضہ کی بڑی وجہ انڈونیشیا کے قدرتی وسائل تھے جن میں سر فہرست مصالحہ جات اور کافی تھی.
جب ڈچ لوگوں کی گرفت مقامی لوگوں پر زیادہ ہوئی تو انہوں نے مقامی کسانوں کو اپنی ہی اگائی کافی کے استعمال سے جبراً روک دیا.
انڈونیشیا میں ایک بلی جیسا جانور پایا جاتا ہے،
انگریزی میں سیوٹ اور اردو میں مشک بلاؤ کہتے ہیں.civet
یہ مشک بلاؤ کافی کے دانے بہت شوق سے کھاتا ہے. مگر انہیں ہضم نہیں کرپاتا. چنانچہ یہ سالم کافی ہی نظام انہضام سے خارج کردیتا ہے. مشک بلاؤ کے معدہ میں موجود اینزائمز کافی پر تھوڑا بہت اثر کرتے ہیں. جب ڈچ قابضین نے مقامی لوگوں پر سختی کی تو انہوں نے مشک بلاؤ کے کھائی ہوئی کافی اکٹھا کرکے اسے صاف اور پراسس کرکے استعمال کرنا شروع کردیا.
انہوں نے نوٹ کیا کہ اس کافی میں کڑواہٹ عام کافی. کی نسبتاً کم ہے اور اس کا ذائقہ بھی اس سے بہتر ہے. آجکل دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی بکنے والی یہی کافی ہے اسے کوپی لاواک (kupi lawak). کہتے ہیں.
شوقین مزاج لوگ اس کے ایک کپ کی قیمت پچاس ڈالر تک ادا کرتے ہیں.
آج انڈونیشیا میں باقاعدہ مشک بلاؤ پالے جاتے ہیں، انہیں کافی کھلائی جاتی ہے اور پھر اسے حاصل کرکے دنیا بھر میں بطور خاص امریکہ اور یورپ کو برآمد کیا جاتا ہے.
امازون پر 25 گرام کا پیکٹ 19 ڈالر کا بک رہا ہے گویا قریب سوا لاکھ روپے فی کلوگرام.
غور فرمائیں کہ انسانوں کو اللہ نے کس قدر دانش عطا کررکھی ہے،
جب وہ اس کا استعمال کرنے پر آجائے تو جانور کا فضلہ دنیا کی عقلمند ترین قوموں کو انتہائی مہنگے داموں فروخت کرلیں. لیکن اگر اسی عقل کا استعمال ترک کردیں تو بیش قدر خزانے ان کے پاؤں میں پڑے رہیں اور وہ بھوک سے بلکتے رہیں.
کوپی لاواک کا خیال میرے ذہن میں تب آیا جب ایبٹ آباد کے قریب گاؤں سولہن بالا میں ایک درد دل رکھنے والا جوان کمال قاضی ہمیں بتا رہا تھا کہ ان کے علاقے میں بے شمار قدرتی جڑی بوٹیاں اور درخت ہیں جن پر طرح طرح کے پھل لگتے ہیں لیکن ہمیں نہ انکی افادیت پتہ ہے اور نہ ہی انکا استعمال معلوم . .
وہاں اس علاقے میں ہم نے دیکھا کہ چھوٹے املوک date plum کے بہت سے درخت ہیں. جن پر بے تحاشہ پھل لگا ہوا ہے جو وہیں گر کر ضائع ہورہا ہے. شاید ایک فیصد خشک حالت میں شہروں تک پہنچتا ہے. باقی سب بیکار.
جب ہم نے تازہ حالت میں اسے کھایا تھا یقین کریں اس قدر میٹھا، گذاد اور ذائقہ دار تھا کہ افسوس ہوا کہ آج سے پہلے کیوں محروم رہے. میرا ایسا ماننا ہے کہ کہ اگر اس میں سے بیج علیحدہ کرکے اس کی پلپ کا فروٹ لیدر بنایا جائے تو یہ ذائقہ میں سنکرز کے برابر کی کوئی چیز ہو اور افادیت اور غذائیت میں اس سے کہیں آگے..
کیونکہ اس میں حیاتین اے، بی ون، بی تو، بی تھری، حیاتین دی اور کے کے ساتھ ساتھ کئی دھاتیں کاپر، میگنیشیم، مینگنیز کے علاوہ فاسفورس پروٹین فائبر اور اینٹی آکسیڈینٹس بھی موجود ہیں .
میرے خیال میں گودے سے بیج علیحدہ کرنے والی شمسی توانائی سے چلنے والی مشین بیس سے پچیس ہزار کی بن جائے گی. اگر ایک گاؤں میں دوچار مشینیں لگی. ہوں اور سارے گاؤں والے اپنے اپنے پھل توڑ کر اس سے بیج اور گودہ علیحدہ علیحدہ کروالیں اور اس کا لیدر بنالیں یا دیگر اشیاء ملا کر اس کی ٹافیاں، جام، جیلی اور بارز وغیرہ بناکر فروخت کریں تو شاید کروڑوں روپے کا سالانہ کاروبار کیا جاسکتا ہے.
پھر اس کے بیج میں سے پانچ فیصد بہت ہی اعلی قسم کا تیل نکلتا ہے.
جس میں اومیگا تین اور اومیگا چھ بڑی مقدار میں موجود ہیں، یہ تیل خوردنی تیل کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور جلد اور بالوں کے ٹانک کے طور بھی. عین ممکن ہے کہ اس میں کچھ ایسے خواص ہوں جیسے آرگان آئل میں موجود ہیں تو یہ ہزاروں روپے کلو تک بھی جاسکتا ہے..
تیل نکلنے کے بعد بیج کے برادے سے زبردست آرگینک سکرب بنایا جاسکتا ہے. اسے کمپوسٹ کرکے کھاد تیار کی جاسکتی ہے. الغرض حکمت سے اس بظاہر بیکار نظر آنے والی چیز سے بہت سے روپے کماکر علاقے کے لوگوں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے.
مگر اس سب کیلئے ضروری ہے کہ ہم قدرت کی عطاء کردہ عقل کا استعمال شروع کریں.
Comments