Suhagraat

گاؤں کی دلہن کی پہلی رات

گاؤں کی دلہن کی پہلی رات

میں گورنمنٹ ہائی سکول نہم جماعت میں پہنچا تو اگلے ہی دن کچھ لفنگوں کے ساتھ سینگ لڑا بیٹھا اور تھوڑی دیر میں زمین پر گرا انکی لاتوں اور گھونسوں پر تھا کہ اچانک وہ سب لڑکے اڑ اڑ کر اِدھر اُدھر گرنے لگے۔۔۔

پھر ایک بڑے سا ہاتھ نے مجھے سہار دے کر اٹھایا اور ہوش بحال ہونے پر ایک بھاری جثے کے بندے کو دیکھا جسکا بڑا سا گورا چٹا منہ اور ماتھے پر آئے بال۔۔۔باؤ کیوں الجھ بیٹھے ان سے چلو خیر ویکھ لیاں گے۔۔۔یہ مولاداد سے میرا پہلا تعارف تھا۔۔ موصوف ایک بڑے زمیندار کے اکلوتے وارث اور علم کی تلاش میں تین سال سے میٹرک میں تھے۔

میں میٹرک میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں جیسے استاد جی کمرے میں داخل ہوئے تو مولاداد مرغا بن کر تیار۔۔۔ پتا لگا یہ روز کا معمول ہے کیونکہ ماسٹر جی کا معمول تھا کہ آتے ہی پوچھتے تھے کس کس کو سبق یاد ہے تو یہ جناب ماسٹر جی کو بغیر تکلیف دیے خود ہی مرغا بن جاتے تھے۔ خیر میں نے آہستہ آہستہ اسکو راہ راست پر لانے کا سوچا اور روز شام کو گھر لے آتا اور ساتھ میں پڑھاتا۔۔۔وہ بورڈنگ میں رہتا تھا اور بالاآخر اس نے تھرڈ ڈویژن میں میٹرک پاس کرلیا۔

اگلے دن اسکے ماں باپ گنے، ساگ، شلغم اور مولی گاجروں کے ساتھ ہمارے گھر تھے۔۔ ہفتوں ہم لوگ گھر میں گنے کے چھلکوں کا گند اور شلغم مولی کھاکر فضا خراب کرتے رہے۔ مولاداد اپنے خاندان کا پہلا شخص تھا جو میٹرک پاس تھا اور اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرنا اسکے بس میں نہ تھا اور وہ اپنے والد کے ساتھ زمیندارے میں لگ گیا جبکہ میں نزدیکی شہر کے کالج میں داخل میں ہوگیا۔

ایف ایس سی کے امتحان ہوچکے تھے تب اچانک ایک بڑی جیپ ہمارے گھر کے سامنے رکی اور مولاداد صاحب اور اسکی اماں برآمد ہوئے کہ مولاداد کی شادی کا بلاوا لے کر آئے ہیں۔

گھر والوں نے مجھے اجازت دی اور ساتھ ہی میرا دوست خالد بھی تیار ہوگیا۔۔ مقررہ دن سے پہلے دوپہرکو ہم ادھر پہنچ گئے اور مولاداد کے گھر سے متصل ڈیرے میں قیام کیا۔ شام کو رفع حاجت کے لئے واش روم کا پوچھا تو اس نے کھیتوں کی طرف اشارہ کردیا۔

اوہ تو تمام معززین لوٹا اٹھا کر کھیتوں میں جارہے تھے اس وقت سے۔۔۔ میں اور میرا دوست اڑگئے کہ نہ بھائی ہم نے نہیں جانا۔ وہ کہنے لگا چلو گھر کے اندر لیکن ہمیں مناسب نہ لگا۔ استفسار پر بتایا کہ واش روم ہے لیکن کبھی استعمال نہیں کیا خیر خالد صاحب کو پہلے بھیجا کے جا بھائی ۔۔۔

لیکن تھوڑی دیر میں خالد صاحب ادھ کھلی شلوار پکڑے سانپ سانپ کا نعرہ بلند کرتے چلے آریے تھے۔ کہنے لگا کہ یار میں بیٹھا تو ایک لمبی سی زبان فلش سے نکلی اور میں باہر۔۔۔۔

خیر ناڑا باندھ کر مولاداد کے ملازموں کو آگے کرکے واش روم کے قریب پہنچے تو ملازم ایک گو کو کھدیڑتے اور ہنستے ہوئے برآمد ہوئے۔ گو بلا مبالغہ پانچ فٹ لمبی تھی۔ اور بار بار اپنی پناہ گاہ کی طرف لپک رہی تھی۔۔

۔ انہوں نے کہا آپ جاؤ ہم روکتے ہیں اسے۔۔۔۔ ہیں! ہمارا منہ کھلے کا کھلا! او بھائیوں! اسکو مارو! ہم نے ادھر دن میں کافی دفعہ جانا ہے اور مجبوراً انکو اسے موت کے گھاٹ اتارنا پڑا پھر ہم نے واش روم اچھی طرح دھلوایا اور باقی لوگ ہم پر ہنس رہے تھے کہ ایکڑوں پر پھیلے کھیتوں کو چھوڑ کر فور بائی فور کی لیٹرین میں۔۔۔

رات کو گیدڑوں بھیڑیوں کی آوازیں سنتے ہم سوگئے اور صبح اسکے والد صاحب نے اٹھایا کہ پتر نماز پڑھو اور نہا دھو لو۔۔۔۔ اتنی صبح نہانا ۔۔۔۔ ہم نے نماز پڑھی اور دوبارہ سو گئے۔۔۔ اچانک ایک افتاد ہم پر ٹوٹ پڑی کہ دلہا کے دوست سو رہے ہیں۔ تو بھائی ہم کیا کریں ؟

خود بھی تیار ہو اور مجھے بھی تیار کرو۔۔۔۔لو بھائی ۔۔۔نہانا کہاں ہے اور اللہ کے واسطے نہر میں نہ نہلا دینا میں نے گزشتہ شام کے واقعے کے پیش نظر ہاتھ جوڑ کر عرض کی۔۔۔اس نے ایک دھپ میری کمر پر جڑ دی اور انجر پنجر ہلانے کے بعد بولا کہ ٹیوب ویل چلوا دیا ہے۔ او بھائی اتنی ٹھنڈ اور ٹیوب ویل! کیوں مروانا ہے ماڑی جانوں کو

لیکن وہ زبردستی ہم دونوں کو ٹیوب ویل پر لے گیا اور اٹھا کر حوض میں پھینک دیا ہماری چیخیں نکل گئیں لیکن تھوڑی دیر میں پانی نیم گرم اور بھاپیں اڑاتا محسوس ہوا واہ بھائی واہ میں اور خالد خوب نہائے اور پیراکی کی کوشش بھی کرتے رہے۔ اب مجبوراً مولاداد کو ہمیں پھر باہر نکالنا پڑا ۔۔۔ چل بھائی فوراً پہنچ۔۔۔ہم نے ڈیرے کی طرف دوڑ لگاتے کہا۔ ہم نے تیار ہوکر مولا داد کی پگ اور چادر کو اچھی طرح سیٹ کیا اور اسکی پھوپھی کو بمشکل روکا جو ایک پاو تیل اسکے سر پر انڈیلنے کوتیار بیٹھی تھی ۔۔۔۔

اب سہرا بندی کے بعد بھائی صاحب گھوڑے پر بیٹھے اور ارشاد ہوا کہ تم دونوں بھی گھوڑوں پر بیٹھ کر ساتھ چلو ۔۔۔ہم نے کہا بھائی کھوتے کی سواری کا تجربہ تو ہے لیکن گھوڑا ؟ کچھ نہیں ہوتا اور ہم دونوں بمشکل ایک گھوڑے پر سوار ہوکر پگڑیاں سر پر بندھواکر اپنے تئیں گاؤن کے چوہدری بنے گاؤں کے راؤنڈ کو نکلے لیکن بیڑا غرق ہو گاؤں کے شرارتی لڑکوں کا جنہوں نے اس شریف گھوڑے کو چھیڑا اور وہ تیر ہوکر بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔۔ بچاو بچاو پورا گاوں ہماری لرزہ خیز آوازوں سے گونج اٹھا ۔۔۔

بارات تیار ہوئی اور ایک بیگ ہمیں دیا گیا کہا مولا داد اور تمہارے سوٹ ہیں اس میں ہم نے ڈگی میں سامان رکھا اور دوسرے گاؤں کی طرف چل پڑے۔۔۔۔دوسرے گاوں کے باہر گاڑیاں روک دی گئیں کہ اب باقی کا سفر پیدل ہوگا لیکن بزرگوں نے وہیں پر ٹھہرنا مناسب سمجھا ۔۔۔۔شائید یہ بھی کوئی رسم ہوگی بس یہ سوچ کر ہم مولا داد کے ساتھ چل پڑے۔۔۔ کچی گلیوں میں داخل ہونے کے کچھ دیر بعد ہمیں گاؤں کی الہٹر مٹیاروں کا ایک ٹولا لال پیلے نیلے کپڑوں میں ملبوس گلی کے درمیان کھڑا نظر آیا جو یقیناً ہمارے استقبال کے لئے پھول نچھاور کرنے کھڑا تھا

خالد مجھ سے اور میں گھوڑے کی گردن سے لپٹا ہوا تھا کہ اچانک گھوڑے نے بریک لگائی اور ہم اسکے اوپر سے ہوتے ہوئے مٹی میں اور بمشکل اٹھے تو ہماری پگڑیاں کھل کر گلے میں اور چہرہ مٹی میں بھرا بھوت بنا ہوا تھا ہم دونوں ایک دوسرے کو بھوت بنے ہوئے دیکھ کر ہنس ہنس کے دوہرے ہوگئے اور گاوں والے ہمیں دیکھ کر۔۔۔۔ خیر ٹیوب ویل کی دوبارہ سیر ہوئی اور ہم تیار ہوکر دوبارہ بابو بن گئے۔۔

ہمیں تمام شہری بابو اور گاؤں کی الہڑ مٹیاروں کی فلمیں یاد آگئیں اور ہم نے مولاداد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ ایک دم میرے پاوں میں کانٹا چبھ گیا ۔۔۔میں نے کھسے پہنے تھے اور سائیڈ سے کی کا کانٹا گھس گیا میں وہیں بیٹھ گیا اور باقی لڑکے بالے تقریباً مجھے روندتے آگے بڑھ گئے ۔۔۔۔ اچانک چیخوں اور قہقہوں کی مشترکہ آوازیں سنائیں دیں جو نگاہ اٹھا کر دیکھا وہ تمام چڑیلیں رنگ سے بھری گڈویاں پکڑے سب کے پیچھے لوگوں کو نیل کنٹھ بنانے میں مصروف تھیں۔۔۔ لڑکے آپا دھاپی میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر گررہے تھے اور حسینائیں جو اس وقت چڑیلوں کا روپ دھار چکی تھیں سب کو لال پیلا کررہی تھیں۔۔۔

میں الٹے قدموں واپس دوڑا کہ چلو بچت ہوئی لیکن گلی کے دوسری طرف سے بھی لڑکیوں کا ہراول دستہ برآمد ہوگیا۔ میں ایک نزدیکی مکان میں گھس گیا اور کنڈی لگا دی۔ کون ہے کون ہے اندر سے آواز آئی اور ایک بوڑھی خاتون اندر سے برآمد ہوئی پتر کی ہویا۔۔۔ ماں جی وہ لڑکیاں ۔۔۔۔اچھا اچھا پرونے ہو ۔۔۔آہو جی اچھا پتر آجا اندر میں ویکھنی آں۔۔۔۔ماں جی دروازہ نہ کھولنا ۔۔

۔ پتر بے فکر ہوجا اور مجھے سیڑھیوں کے نیچے چھپ جانے کو کہا۔۔۔میں سعادت مندی سے نیچے بیٹھ گیا۔۔۔۔ دروازہ کھلا کچھ بات ہوئی اور پھر خاموشی ۔۔۔واہ بڑی جلدی معاملہ ٹل گیا اور میں خوشی سے نہال باہر آیا تو کیا دیکھتا ہوں اماں جان تمام ریوڑ کو لیکر پوپلے منہ سے مسکرارہی ہیں میں فوراً سیڑھیوں کی طرف بھاگا لیکن ایک لڑکی نے ٹانگ اڑا کر مجھے اوندھے منہ گرنے پر مجبور کردیا اور میں نیل کنٹھ سرکار بن گیا۔۔۔۔

خیر ہم سب دوبارہ جمع ہوئے اور احتجاج کیا کہ بھائی کیا بدتمیزی ہے تو ارشاد فرمایا رسم ہے اور کسی کو اعتراض کرنے کی جرات نہیں۔۔۔۔اچھا تبھی بزرگ پیچھے ہی رک گئے تھے اور ہم برباد ہونے ادھر۔۔۔۔۔ مگر ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا جب بزرگ بھی رنگ برنگے لباسوں میں آن موجود ہوئے۔۔۔۔ بہرحال مولاداد اور ہم نے کپڑے تبدیل کیے جو ساتھ ہم لائے تھے۔۔۔

پھر ہم پنڈال میں لائے گئے اور نکاح کے بعد چھوارے بارش کے قطروں کی طرح نچھاور کیۓ گئے اور لڑکے بالے پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو کچلتے چھوارے لوٹنے میں مشغول ہوگئے یا وحشت کوئی مہذب کام بھی ہوتا ہے ادھر میں نے مولاداد سے پوچھا ۔۔۔۔ مہذب کس چڑیا کا نام ہے بھائی چھوارے باآواز بلند چباتے جواب آیا۔۔۔

چلو جی اب کھانے کی باری تھی بہت اچھے پیمانے پر سجاوٹ اور کھانا لگا ہوا تھا ۔۔۔ قریبی شہر سے ویٹر منگوائے ہوئے تھے کیونکہ بڑے بڑے زمیندار مدعو کیے گئے تھے۔۔۔ ہم نے سوچا اب ہم بھی معززین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔۔۔۔ کھانا کھل گیا ہے اعلان ہوا اور تمام لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز کے مصداق بلاشرکت غیرے کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ معززین کلف لگے سوٹ میں ملبوس وحشیوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے۔۔۔ باہر والوں کو جب پتا لگا کہ کھانا کھل گیا ہے تو وہ دروازے سے آنے کی بجائے قناتیں اٹھا کر اندر داخل ہوگئے

۔۔۔ ویٹر تیزی سے کھانے کی ٹرے لیکر میزوں تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے لیکن میزوں تک پہنچنے سے پہلے ٹرے خالی ہوجاتی تھی۔۔۔ ہم ہکا بکا کہ بھائی یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔ پھر ایک معزز شخص کو ہم پر ترس آیا تو ایک چکن روسٹ ہمیں عنایت کیا جو میں نے اور خالد نے کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔۔بعد میں مولاداد سے ہم نے کہا کہ شکر ہے لوگ ہمیں نہیں کھا گئے تو چھت پاڑ قہقہہ لگا کر بولا ابھی آدم خور نہیں بنے ہم یعنی بن سکتے ہیں۔۔۔۔واپسی پر تمام باراتیوں کو سو سو روپے دئیے گئے اور ہم واپس بارات لے کر گاؤں پہنچ گئ

شام کے کھانے کے نوجوان پراسرار طور پر غائب ہونے لگے تو استفسار پر بتایا شب شپاپ ۔۔۔ سر کو کھجاتے ہم بھی ایک ٹولی کے ساتھ ہولئے جو کہ ادھر سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے دوری پر ایک اور ڈیرے میں پہنچ گئے جہاں رقص و سرود کی محفل سجی تھی جسکا تذکرہ ہم حذف کرتے ہیں۔۔رات کے دو بجے ہم نے اور مولا داد کے دوستوں نے مولے کو زبردستی پکڑ کر گھر کی طرف کھینچا ورنہ وہ بضد تھا کہ محفل تو اب سجی ہے۔۔۔۔ ہم ادھر ڈیرے میں آگ جلا کر بیٹھ گئے۔ تمام لوگ سوچکے تھے ہم نے کہا جا بھائی بھابھی انتظار کررہی ہوگی۔ جیسے وہ اٹھ کر جانے لگا ایک دوست نے اسکے کانوں کچھ کھسر پھسر کی اور مولا گھر چلاگیا

۔۔۔۔ہم آگ کے آس پاس بیٹھ کر آج کے واقعات پر ہنس ہی رہے تھے اچانک ایک نسوانی چیخ پر بدحواس ہوگئے۔۔۔ وہ زبح کیے ہوئے بکرے کی طرح چیخ رہی تھے ۔۔۔ دھاڑ وے مر گئی ۔۔۔۔ ہم تیزی سے گھر کے اندر بھاگے مولے کا کمرہ کا دروازہ باہر کی طرف بھی کھلتا تھا ہم نے دروازہ زور سے بجایا دروازہ کھلا تو مولاداد اپنے ہاتھ بلند کئے آنکھوں کو الو کی طرح پھاڑے اور دنیا جہان کی مظلومیت چہرے پر طاری کئے کہہ رہا تھا ًمیں کج کائی نی کِتاً ًمیں کج کائی نی کِتاً (میں نے کچھ نہیں کیا)

۔۔ کچھ خواتین اندر داخل ہوگئیں اور تھوڑی دیر ہنس ہنس کر دوہری ہوتی باہر آئیں کہ دلہن کافی دیر سے دوزانوں بیٹھی تھی اسلئے پٹھے سوگئے اور جب اچانک اٹھنے لگی تو نہ اٹھ سکی اور گھبرا گئی ۔۔۔ مولاداد ابھی بھی ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا۔۔۔۔اب ہنسنے کی باری ہماری تھی کج کائی نی کتا اور اس کا چہرہ ہم ہنس ہنس کر دہرے ہوگئے اور پہلی دفعہ مولا ناراض ہوکر ڈیرے میں

۔۔۔۔ہماری ہنسی نہ رکے اور گھر والے کہیں اسکو لے کر آو لیکن جیسے ہم اسکا سوچتے ہم پر ہنسی کا دورہ اٹھ جاتا۔۔ خیر اسکو منا کر ہم نے کمرے میں بھیجا اور ہم خود اپنے کمرے میں جاکر سو گئے۔ اس طرح ہماری گاؤں کی پہلی شادی اختتام پذیر ہوئی۔۔۔

About the author: Shah Mahar

No Gain Without Pain
I am a Muslim and Love Muhammad

Comments

@peepso_user_52(Imran khan)
AMAZING
04/11/2021 3:05 am