گورا قبرستان میں لڑکی کی میت کا معاملہ

مارے محلے کے ایک عشرت دادا ہوا کرتے تھے ۔۔چھوٹے بڑے سب ان کو عشرت دادا کہتے تھے ۔۔
سو سے اوپر پہنچ چکے تھے لیکن اب بھی ان کے ہاتھوں پیروں میں کافی طاقت تھی ۔۔
باتوں باتوں میں ایک بار انہوں نے ذکر کیا کہ مجھے ایک بہت پرانا واقعہ یاد آرہا ہے ۔۔
یہ واقعہ ہم تک سینہ بہ سینہ پہنچا ہے ۔۔میں نے اپنے دادا کی زبانی سنا تھا جب کہ میرے دادا کو بھی ان کے بزرگوں نے سنایا تھا.۔
یہ واقعہ تب کا ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے نیا نیا اودھ پر قبضہ جمایا تھا ۔۔لکھنؤ میں جو انگریز کمیشنر متعین تھا وہ بہت سخت تھا ۔۔اس کاایک اصول طریقہ یہ تھا کہ جلد از جلد عوام کا رہن سہن،،، بول چال،،، لکھنا پڑھنا سیکھ لینا چاہیے تاکہ عوام میں گھل مل جائے..۔
۔کمشنر کے ساتھ اس کی ایک جوان لڑکی بھی تھی. اس کی بیوی یا فوت ہو چکی تھی یا لندن میں رہ گئی تھی..
بہرحال کمشنر اپنی بیٹی کے ساتھ لکھنؤ میں رہتا تھا ۔۔
.ایک دن بیٹی نے باپ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ہندوستانی زبان سیکھنا چاہتی ہے..
باپ کو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی.. اس نے سوچا اگر “میری” نے ہندوستانی زبان اچھی طرح سیکھ لی تو وہ اسے کسی اچھے عہدے پر متعین کر دے گا ۔۔
کمشنر نے بیٹی کے لیے ٹیوشن کا بندوبست کردیا.. ان دنوں ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہوتی تھی. ۔
کمشنر نے بیٹی کو فارسی پڑھانے کے لئے فارسی کے ایک عالم قاری امام بخش کو بلایا ۔۔
قاری صاحب کی ایک ہی شرط تھی کہ وہ لڑکی اور اپنے درمیان ایک پردہ حائل ہونا چاہیے.. تب ھی وہ لڑکی کو پڑھائیں گے ۔۔
قاری صاحب نے لڑکی کو پڑھانا شروع کردیا.. ٹیوشن کے دوران اگر نماز کا وقت آجاتا تو قاری صاحب وہیں پر نماز پڑھتے یا لڑکی جب اپنا سبق یاد کر رہی ہوتی تو قاری صاحب گم صم یا خاموش بیٹھنے کے بجائے قرآت شروع کر دیتے ۔۔
قاری صاحب کی آواز میں اللہ تعالی نے ایسی تاثیر عطا کی تھی کہ سننے والوں کا دل ان کی طرف کھنچا چلا جاتا.۔۔
قاری صاحب بتاتے ہیں کہ ایک دن لڑکی نے مجھ سے پوچھا کہ قاری صاحب آپ نماز میں اور یوں بیٹھے بیٹھے کیا پڑھتے ہیں؟؟۔
میں نے کہا.. قرآن شریف کی تلاوت کرتا ہوں.. یہ ہماری مذہبی کتاب ہے..
مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو..میری نے کہا،،، جب آپ پڑھتے ہیں تو میرا دل اس کی طرف کھینچا جاتا ہے ۔۔میری سمجھ میں اس کا ایک لفظ بھی نہیں آتا مگر میرا دل کرتا ہے، آپ پڑھتے رہیں اور میں سنتی رہوں ۔۔قاری صاحب نے کہا،، یہ میری آواز کا کرشمہ نہیں بلکہ اس کلام کی تاثیر ہے کہ دل میں اترتی جاتی ہے.۔۔
ڈرامہ جلن کا اختتام : ’سالی سالی ہوتی ہے اور گھر والی گھر والی ہوتی ہے‘ |
پاکستانی عورتیں کی پسندیدہ ڈیٹنگ ایپ |
یونیورسٹیوں میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ |
کچھ دن گزر گئے،، تو میری نے ایک دن بہت ہچکچاتے ہوئے مجھ سے کہا کہ قاری صاحب ایک بات کہوں اگر آپ برا نہ مانے.. آپ جو پڑھتے ہیں مجھے بھی دکھائے ۔.۔میں نے کہا کہ ایسی بات تم نے کردی… کمشنر صاحب کو معلوم ہوگا تو مجھے مروا دیں گے کہ میں ان کی بیٹی کا دین برباد کر رہا ہوں ۔۔یہ ہماری مذہبی کتاب ہے..
اگر ان کو پتہ چل گیا کہ تم مجھ سے قرآن پڑھو گی تو وہ مجھ پر الزام لگائیں گے کہ میں ان کی بیٹی کو مسلمان بنانے کے لیے ورغلا رہا ہوں
/۔۔میری نے کہا کہ لیکن یہ معاملہ اتنا سیریس نہیں ہے… میں فادسی بھی تو آپ سے پڑھ رہی ہوں… جب فارسی سیکھنے میں کوئی عیب نہیں.. تو عربی سیکھنے میں بھی کیا برائی ہے
۔۔میں نے کہا… تمہاری دلیل درست ہے مگر قرآن پاک ہماری مقدس کتاب ہے ۔۔اس کو پڑھانا اور تمہیں سمجھانا بالکل دین کا معاملہ ہو جاتا ہے ۔۔
وہ چپ ہو گئی میں سمجھا کہ اس نے اپنے دل سے خیال نکال دیا ہے ۔۔مگر وہ اپنی ضد کی پکی نکلی…
کئی دن بعد اس نے پھر وہی بات کی.۔اس نے کہا… قاری صاحب میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ اس بات کا علم میرے اور آپ کے علاوہ کسی کو نہیں ہوگا اور نہ کبھی کوئی آپ پر آنچ آئے گی.۔میں نے اس کو بہت سمجھایا.. جب میں ہر طریقے سے اس کو سمجھا کر تھک گیا.. تو پھر مجھے ہتھیار ڈالنے پڑے…
میں نے دل میں کہا.. اب اللہ ہی مالک ہے. جو منظور ہو گا وہ ہو کر رہے گا۔۔اب وہ فارسی کے ساتھ عربی بھی پڑھنے لگی تھی..
ایک تو وہ بہت ذہین تھی… دوسرا اس کا جذبہ اور شوق تھا تو وہ بہت کم عرصے میں روانی سے پڑھنے لگی ۔۔۔
کچھ دن بعد اس نے مجھے ایک اور بات کی.. بولی…. قاری صاحب،،، آپ مجھے اپنے دین میں داخل کر لیجئے..میرے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔۔
میں نے کہا،،، میری یہ تم کیا کہہ رہی ہو،، اس نے کہا.. جو کہہ رہی ہوں،،، بہت سوچ سمجھ کر کہہ رہی ہوں.. دل سے تو میں بہت پہلے سے مسلمان ہوگئی ہوں مگر اب میں باقاعدہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا چاہتی ہوں
۔.۔میں نے کہا،، تمہیں اس کا انجام پتا ہے،، کمشنر صاحب کو پتہ چل گیا تو میری تکہ بوٹی کرکے چیل کووں کو کھلا دیں گے اور عام مسلمانوں کا جینا بھی یہاں پہ اجیرن بن جائے گا ۔۔تم مجھے معاف کرو… یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکے گا ۔۔
جب اس نے دیکھا کہ میں راضی نہیں نہیں ہو رہا تو اس نے کہا کہ اگر آپ یہ کام نہیں کریں گے تو میں شہر کی جامع مسجد میں جاکر مسلمان ہو جاؤں گی اور یہ بتاؤں گی کہ قاری امام بخش کی رہنمائی اور ہدایت پر میں نے دین اسلام قبول کیا ہے ۔۔میں سخت پریشان ہو گیا… میں نے کہا،،، اللہ کے لئے ایسا غضب نہ کرنا،،، پورے ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کے زیر عتاب آ جائیں گے ۔۔قتل عام شروع ہوجائے گا.
.میری نے کہا.. تو پھر یہ کام آپ خود کر دیجئے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی… میرا وعدہ ہے کہ آپ پر کبھی کوئی آنچ نہیں آئے گی۔۔میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا..
اگر میں یہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتا تو یہ لڑکی کوئی قدم اٹھا سکتی تھی.. ..
میں نے کہا کہ میرے لئے سعادت کی بات ہے کہ تم میرے ہاتھوں مسلمان ہو ۔
تم ضد کر رہی ہو تو میں کلمہ پڑھا دوں گا مگر یہی درخواست کرتا ہوں کہ بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا.۔
میری نے کہا،،،، آپ بالکل اطمینان رکھیں،، میں اپنا مسلمان ھونا کسی پرظاہر نہیں کرونگی،، نہ خود خطرے میں آوں گی نہ آپ کو خطرے میں پڑنے دوں گی ۔۔
میں نے کہا… کل تم میرے آنے سے پہلے نہا کر پاک صاف کپڑے پہن لینا ۔۔اس نے کہا ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گی..
لیکن میں آپ کو یہ بتا دوں کہ جب سے میں دل سے مسلمان ہوئی ہوں.. ہمیشہ پاک صاف ہی رہتی ہوں اور قرآن شریف بھی میں نے ہمیشہ پاکی کی حالت میں ہی پڑھا ہے.۔۔۔
اگلے دن فجر کی نماز کے بعد میں نے اللہ تعالی سے بہت گڑگڑا کر دعا مانگی کہ مجھے ثابت قدم رکھنا… کسی آزمائش میں نہ ڈالنا ۔۔
جب میں ٹیوشن پڑھانے پہنچا تو وہ تیار بیٹھی تھی. میں نے کہا پہلے ٹیوشن پڑھ لو،، پھر کلمہ پڑھ لینا…اس نے کہا… نہیں قاری صاحب،، پہلے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاؤں ۔پھر کچھ لکھوں پڑھوں گی.۔اس نے بہت شوق کے ساتھ کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئی.. اس کے پورے وجود سے خوشی پھوٹ رہی تھی..
اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا.. قاری صاحب آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھلا سکتی.. اللہ آپ کو اس کا اجر دے۔۔میں نے اس کا اسلامی نام فاطمہ رکھا ۔۔
اب وہ روزانہ اپنے سبق کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرتی.. مجھ سے روز پوچھتی کہ ایک مسلمانوں کو کن باتوں کا پابند ہونا چاہیے… کن باتوں سے بچنا چاہیے..
پھر اس نے نماز پڑھنا بھی سیکھ لی اور بڑی پابندی سے نماز پڑھنے لگی… لیکن نماز پڑھتے وقت دروازے وغیرہ بند کر لیتی تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے.۔۔
ایک دن اس نے مجھے کہا.. قاری صاحب میں ہولی پرافٹ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پڑھنا چاہتی ہوں.. ان کی لائف پر کوئی کتاب ہو تو مجھے لا دیں ۔۔
ھوڑی تلاش کے بعد مجھے ایک اچھی کتاب مل گئی.. جو کہ انگریزی زبان میں تھی.. وہ بہت خوش ہوئی اور اس نے اس کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھا ۔۔
وہ کتاب پڑھنے کے بعد اس میں ایک نمایاں تبدیلی یہ آئی کہ آقا مولا کی ایک ایک بات،،، ایک ایک انداز،، اس کے دل میں گھس کر رہ گیا ۔۔وہ ان کی شخصیت اور کردار سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے خود کو حت الامکان ان کی عادات میں ڈھال لیا ۔یہ کام اس کے لیے بہت مشکل تھا.. ایک انگریز باپ کی بیٹی تھی.. انگریزی ماحول میں رہتی تھی.. مگر اس نے بڑی احتیاط سے خود کو سنت کے طریقے پر رکھا ۔۔.
وہ اکثر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں کرید کرید کر پوچھتی اور جب ان کا ذکر ہوتا تو اس پر ایک جذب کی کیفیت ہوجاتی ۔۔
ایسا والہانہ عشق میں نے بڑے بڑے بزرگوں میں بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔.کچھ عرصے بعد فاطمہ جب بہت اچھی طرح فارسی لکھنے پڑھنے لگ گئی…
تو میں نے کہا کہ اب تمہیں مزید ٹیوشن کی ضرورت نہیں اس لیے میرا آنا ٹھیک نہیں ۔۔مگر اس نے کہا کہ ابھی مجھے آپ کی مزید ضرورت ہے… مجھ میں مذہبی پختگی نہیں آئے گی.،آپ کی رہنمائی کے بغیر ۔۔۔کمشنر مجھے بہت اچھی تنخواہ دیتے تھے اور اکثر اپنی بیٹی کی تعلیمی پروگریس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہتے تھے.. ۔۔
یہ سلسلہ چلتا رہا.. وہ فارسی کے علاوہ عربی بھی پڑھتی رہی اور اسلامی تعلیمات بھی لیتی رہی مگر یہ سلسلہ اس وقت رک گیا جب وہ بیمار ہو کر بستر سے لگ گئی ۔۔بیماری کی ابتدا معمولی بخار سے ہوئی تھی۔۔
مگر اس نے طول کھینچا اور بہترین علاج کے باوجود اس کی حالت روزبروز بد سے بدتر ہوتی گئی ۔میں اکثر اس کی عیادت کے لیے جاتا تھا اور اس کو دلاسہ دیتا تھا کہ تم جلدی اچھی ہو جاؤ گی۔۔
ایک دن وہ کہنے لگی کہ قاری صاب میرا وقت پورا ہوگیا ہے ۔۔مجھے کسی تسلی کی ضرورت نہیں۔ ۔میں نے کہا۔۔ ایسی باتیں کیوں کرتی ہو فاطمہ!! انشاءاللہ بہت جلد صحت مند ہو جاؤ گی۔۔
اس نے کہا ۔۔مجھے تو کوئی امید نہیں مگر اس بات کو چھوڑیں اور میری ایک بات غور سے سنیں ۔۔ میں مر گئی تو مجھے ایک انگریز کی حیثیت سے یہ لوگ انگریزوں کے قبرستان میں دفن کریں گے ۔مگر میں مسلمان ہوں ۔۔ انگریزوں کے قبرستان میں دفن ہونا پسند نہیں کروں گی ۔۔میں نے کہا۔۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے تم انگریز باپ کے علاوہ کمشنر کی اولاد ہو ۔۔
کون ان کو اس کام سے روکے گا۔ ۔اس نے چند لمحے سوچا ۔۔پھر بولی ۔۔ ایسا کریں ان لوگوں کو ان کے اپنے طریقے پر مجھے گورا قبرستان میں دفن کرنے دیں مگر رات میں آپ کو میری میت انگریزوں کے قبرستان سے نکال کر مسلمانوں کے قبرستان میں منتقل کرنی ہوگی۔۔ یہ سن کر میری روح کانپ گئی ۔۔یہ کوئی معمولی کام نہ تھا ۔۔انتہائی خطرناک اور پیچیدہ کام تھا ۔
مجھے چپ دیکھ کر فاطمہ بولی ۔۔ قاری صاحب آپ نے مجھ پر بہت احسان کئے ہیں ۔۔یہ آخری احسان بھی کر دیجئے ۔۔مجھے پتہ ہے یہ بہت دشوار کام ہے۔۔ اس بہت خطرہ ہے مگر آپ خود سوچیں ۔۔میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے اسلامی طریقہ پر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونا چاہیے۔۔ میری جگہ انگریزوں کا قبرستان نہیں۔۔ ۔اس نے بہت اصرار کیا۔۔ بہت منتیں کیں۔۔
میں نے مجبوری میں اس سے وعدہ کرلیا کہ میں تمہاری مرضی کے مطابق ایسا ہی کروں گا۔۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کا انتقال ہوگیا ۔اس کی موت ایسی نہیں تھی کہ ڈھکی چھپی رہتی ۔۔باپ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔۔ اتنے مضبوط اعصاب کا آدمی بھی ٹوٹ کر رہ گیا ۔
میت میں لکھنؤ میں موجود انگریزوں کے علاوہ مسلمانوں اور ہندوؤں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی ۔۔میں بھی مرحومہ کے استاد کی حیثیت سے شریک تھا ۔۔جبکہ میری شرکت اس لیے بھی ضروری تھی کہ اس نے جو مجھے اہم ذمہ داری سونپی تھی اس لئے مجھے اس کی قبر کا بخوبی تعین کرنا ضروری تھا۔۔ میں نے خوب اچھی طرح قبر کی شناخت کر لی۔۔
تاکہ رات کے اندھیرے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔۔ فارغ ہو کر جب میں نے غور و فکر کیا تو مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ کام میں اکیلا نہیں کر سکوں گا۔۔ اس کے لئے مجھے چند لوگوں کی ضرورت پڑے گی۔۔ بہت سوچنے کے بعد مجھے اپنا ایک عزیز ترین دوست حافظ علی یاد آیا ۔جس پر میں بھروسہ کرسکتا تھا۔۔ اور جو میرا ساتھ دے سکتا تھا ۔۔
میں نے وقت ضائع کئے بغیر اس سے رابطہ کیا۔ ۔تو ساری بات کی۔۔ اس نے کہا ۔۔تم پاگل ہو گئے ہو ۔۔اس بات کی سنگینی کا تمہیں علم نہیں ۔۔قبر سے لاش چرانا ہی کوئی معمولی جرم نہیں۔۔ اس پر لاش بھی زنانہ اور وہ بھی جوان کنواری لڑکی کی ۔۔۔اگر پکڑے گئے ۔۔لوگ ہمارے بارے میں کیا خیال کریں گے ۔۔کیا کچھ نہیں سوچیں گے اور پھر وہ لاش ہے بھی انگریز کمشنر کی بیٹی کی ۔۔۔۔میں مایوس ہو گیا
۔۔میں نے کہا ۔۔تم نے جن خطروں کا ذکر کیا ہے ۔۔میں بے خبر نہیں ہوں۔۔ میں پہلے ہی غور کر چکا ہوں۔۔
مگر ان تمام خطرات کے باوجود یہ کام کرنا ہے ۔۔۔ اس نے کہا ۔۔ میں تمہیں یہی مشورہ دوں گا کہ تم اس خیال کو دل سے نکال دو ۔۔ٹھیک ہے تم نے مرنے والی سے وعدہ کیا تھا مگر ایسا وعدہ کے جس پر نبھانے کے لیے تم خود کو اور دوسروں کو مصیبت میں ڈال دو ۔۔یہ صحیح نہیں ۔ قبر سے کیا ہوتا ہے ۔۔قبر میں تو محض جسم ہوتا ہے ۔۔وہ مسلمان ہوگئی تھی۔۔
اس کی روح کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے درجے میں رکھا ہوگا۔ ۔میں نے کہا ۔۔اگر تم میرا ساتھ نہیں دینا چاہتے تو مت دو۔۔ میں یہ کام اکیلے ہی کروں گا ۔۔وہ تھوڑی دیر مجھے ناراضگی میں دیکھتا رہا ۔۔پھر بولا ۔۔اگر تم مرنا ہی چاہتے ہو اور اپنے ساتھ میرا بھی بیڑا غرق کرنا چاہتے ہو تو یہی سہی ۔مگر پھر بھی یہ کام دو آدمیوں کا نہیں۔۔ کم از کم دو اور ادمیوں کی ضرورت پڑے گی۔۔
میں نے کہا کہ وہ باقی دو آدمی کہاں سے آئیں گے۔۔ اس نے کہا۔۔۔ جہاں سے بھی آئیں ۔۔ بہرحال انتظام کرنا پڑے گا ۔میت کو تم کندھے پر تو اٹھا کر نہیں لے کر جاؤ گے۔۔ کھاٹ پر تو رکھنا پڑے گا اور کھاٹ کو لے جانے کے لیے کم از کم چار آدمی ضروری ہوتے ہیں ۔۔تھوڑی سوچ و بچار کے بعد حافظ نے کہا۔۔ میرا خیال ہے کے میرا شاگرد سلطان ایسا انسان ہے کہ جو میری بات رد نہیں کرے گا ۔۔اس سے بات کرکے اس کو منانا پڑے گا ۔۔
سلطان ایک 25 سالہ نوجوان تھا۔۔ جو کہ قرآن پاک حفظ کر رہا تھا ۔۔وہ اپنے استاد کی بہت عزت کرتا تھا ۔
اس نے ساری بات سنی تو بڑی سعادت مندی سے کہا ۔۔حافظ صاحب آپ کا حکم میرے سر آنکھوں پر۔۔۔ یہ کام مشکل اور خطرناک تو ہے مگر آپ کی خدمت کرکے مجھے خوشی ہوگی ۔۔
حافظ نے کہا کہ ہمیں ایک بندے کی اور ضرورت ہے جو ہمارے لئے مددگار ہو ۔۔اس نے تھوڑی دیر سوچا۔۔ پھر بولا۔۔ میری نظر میں ایک آدمی ہے مگر وہ غریب آدمی ہے ۔۔محنت مزدوری کرتا ہے ۔۔اگر اسے کچھ پیسے دے دیے جائیں تو انکار نہیں کرے گا۔۔ قابل اعتماد بھی ہوگا ۔۔۔
لڈن نام کے شخص سے سلطان نے ہمیں ملوایا۔۔ لڈن کو ہم نے اپنی توقعات سے بڑھ کر پایا ۔۔جب اس کو ساری بات بتائی گئی تو وہ فوراً راضی ہو گیا۔۔ اس نے کہا ۔۔یہ تو بڑے ثواب کا کام ہے حافظ جی ۔۔۔وہ نیک بیبی مسلمان ہو گئی تھی ۔۔اس کا گورے قبرستان میں دفن ہونا کسی بھی حالت میں اچھی بات نہیں۔۔
اس کی خواہش کے مطابق ہمیں اسے ضرور مسلمان قبرستان میں دفن کرنا چاہیے ۔۔جب ہم نے اس کو کچھ پیسے دینا چاہے تو اس نے لینےسےانکارکردیا ۔۔۔ہم چاروں نے پھر پوری منصوبہ بندی کی اور سوچا کہ سب سے پہلے ہمیں قبرستان میں قبر کھدوا کے تیار رکھنی چاہیے تاکہ جب ہم میت کو لے کر جائیں تو تدفین کا کام فوری پورا ہو جائے ۔۔
ہم نے مسلمان قبرستان میں شام ہونے سے پہلے ہی قبر کھدوا لی اور تقریبا رات کے ڈیڑھ بجے ہم ساتھ کھدال ،،موم بتیاں،، اور باقی سامان لے کر گورا قبرستان پہنچ گئے ۔۔۔آسمان پر بادل تھے اور چاند بھی شروع کی تاریخوں کا تھا ۔۔پورے شہر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ہمیں قبرستان میں قدم رکھتے ہی کپکپی آ گئی ۔۔ہوا اسے کوئی پتا بھی ہلتا تو ہمہارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ۔
ہم جلد ہی فاطمہ کی قبر پر پہنچ گئے اور وقت ضائع کئے بغیر موم بتی کی روشنی میں لڈن نے قبر کی کھدائی شروع کر دی ۔۔تھوڑی دیر بعد قبر کھل گئی تو لڈن نے پھاوڑا رکھ کر ہاتھ صاف کیے اور کہا کہ میں اندر جاکر تابوت سے میت نکالتا ہوں ۔۔اوپر سے سلطان نے موم بتی کی روشنی ڈالی۔۔ لہٰذا لڈن نے اس سے موم بتی لے کر قبر میں قدم رکھا اور تابوت کا ڈھکنا اٹھا دیا …
ڈکن اٹھاتے ہی اسے ایک جھٹکا سا لگا ۔۔ہم لوگ کچھ نہیں سمجھ پائے۔۔۔لڈن نے خوفزدہ آواز میں کہا۔۔۔ یہ کیا ماجرہ ہے ۔۔۔ہم نے پوچھا کیا ہوا ۔۔اس نے کہا ۔۔اندر دیکھیے ۔۔اس نے موم بتی میت کے قریب کردی۔۔۔جب ہماری نگاہیں میت پر پڑی تو ہم پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے وہ کوئی مردانہ نعش تھی ۔۔حافظ میں مجھے ناراضگی سے کہا۔۔ تم نے غلط قبر کھدوا دی۔۔۔
میں نے کہا۔۔ نہیں،، قبر یہی ہے۔۔ اس نے کہا۔۔ اگر قبر یہی ہے تو میت کہاں ہے ۔۔اتنے میں لنڈن بھی قبر کے اندر سے اوپر آ گیا ۔۔۔اس نے کہا۔۔ حافظ جی یقینا آپ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے۔۔
مگر کوئی بات نہیں۔۔ اندھیرے میں بھوک چوک ہو ہی جاتی ہے ۔۔جلدی سے اصل قبر تلاش کیجئے اور پھر ہم موم بتی لےکراس پاس نئی قبر کے نشانات تلاش کرنے لگے۔۔۔مگر کوئی بھی نئی قبر نظر نہیں آئی ۔۔اور پھر اس کھودی ہوئی قبر کے سرہانے میری کی تختی بھی لگی ہوئی تھی ۔۔۔لہذا ہم اسی نتیجے پر پہنچے کہ یہی قبر فاطمہ کی ہے مگر یہ عجیب معاملہ ہے کہ میت کی جگہ کوئی مردانہ میت ہے ۔۔۔
مزید تسلی کے لیے حافظ قبر میں اترا اور تابوت پر جھک کر میت کو دیکھنے لگا ۔۔اچانک ہی وہ شدید حیرت سے اچھل کر قبر سے باہر آگیا اور آتے ہی اس نے مجھ سے کہا۔۔ جانتے ہو یہ میت کس کی ہے ؟؟،،،میں نے کہا ۔۔نہیں ۔۔۔اس نے کہا ۔۔یہ بارہ بنکی کے نواب یامین کی لاش ہے ۔۔ یہ بارہ بنکی کی ایک تحصیل ماری پور کا نواب یامین ہے۔۔ میں اسے کئی بار بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں ۔۔
میں نے کہا یہ عجیب حیرت کی بات ہے کہ انگریزوں کے قبرستان میں لڑکی کی جگہ مردانہ میت اور وہ بھی ہندوستانی ۔۔۔کچھ سمجھ میں معاملہ نہیں آرہا ۔۔ لڈن نے کہا ۔۔۔آپ لوگ ہٹیے ۔۔ میں جلدی سے قبر بند کر رہا ہوں اور پھر اس نے جلدی جلدی قبر کی مٹی برابر کرکے اس کو پہلی حالت میں کردیا ۔۔
صبح ہونے سے پہلے ہم سب اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکے تھے اور اپنے طور پر بے حد بے تاب تھے اور اس جستجو میں ہم دوبارہ آپس میں ملے ۔۔اور یہ طے پایا کہ ہمیں بارہ بنکی جاکر نواب یامین کی خبر لینی چاہیے کہ سچ مچ اس کا انتقال ہو گیا ہے یا وہ زندہ ہے ۔ہم لوگ پہنچ گئے اور ہمیں اس کی حویلی ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ۔
۔جب ہم نے اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو ہمیں بتایا گیا کہ نواب صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اور کل ہی ان کی تدفین ہوئی ہے ۔۔ہم نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ہمارے محسن تھے اور ہم ان سے ملنے کے لیے لکھنو سے آئے ہیں ۔مگر افسوس کہ ہماری قسمت میں ان سے ملاقات نہیں تھی ۔۔حویلی کے کارندے نے کہا آپ لوگ رات یہیں بسر کیجئے اگلی صبح سفر کیجئے گا ۔۔حافظ نے کہا کہ ہماری بدنصیبی کے ان سے ملاقات نہیں ہوسکی مگر ہم ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنا چاہتے ہیں۔۔ کیا آپ ہمیں ان کی قبر تک رہنمائی فرما دیں گے ؟؟
انہوں نے کہا جی ضرور کیوں نہیں اور پھر ایک آدمی کی رہنمائی میں ہم لوگ ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے گئے ۔۔رات کھانا کھانے کے بعد حافظ نے کہا کے آئندہ کا کیا پروگرام بنایا ہے ۔۔۔حافظ نے کہا تم بیوقوف ہو ۔۔کیا ہم یہاں صرف فاتحہ پڑھنے آئے تھے۔۔ ہم نے ان کی موت کی تصدیق تو کر لی مگر اب ان کی میت کی تصدیق کرنا باقی ہے ۔۔اور یہ کام ہمیں آج رات ہی کرنا ہے ۔۔میں نے قبر پر فاتحہ پڑھنا کا چکر اسی لیئے چلایا تھا کہ قبر کی شناخت کر لوں ۔۔لڈن نے کہا۔۔ ہمیں نواب صاحب کی قبر ضرور دیکھنی چاہیے ورنہ یہاں آنے کا مقصد فوت ہوجائے گا ۔۔
ہم لوگ چہل قدمی کے بہانے حویلی سے نکل گئے ۔۔چوکیدار کو کہا کہ ہم لوگ رات کا کچھ لطف اٹھانے کے لیے ذرا دیر تک سیر سپاٹے کے بعد واپس آئیں گے ۔۔ہم لوگ کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک وہاں کی سڑکوں پر گھومتے رہے ۔۔پھر آہستہ آہستہ قبرستان کی طرف رخ موڑا ۔۔ قبرستان ویران علاقے میں تھا اور دن کے وقت بھی وہاں پر آمدورفت کم ہی ہوتی تھی ۔۔
ہم لوگ سازوسامان ساتھ لے کر گئے تھے۔۔۔ دبے پاؤں ہم رات بارہ بجے کے قریب اس میں داخل ہوگئے ۔۔موم بتی کی روشنی میں لڈن نے جلد نواب صاحب کی قبر کھولی اور ہم سب قبر میں جھک گئے ۔۔اور موم بتی کی روشنی میں اندر دیکھنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔ہم پر ایک بار پھر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔قبر کے اندر کفن میں لپٹا ایک انتہائی خوبصورت نوجوان نظر آرہا تھا ۔۔ہم نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ یہ کیا ماجرہ ہے ۔۔لڈن موم بتی لے کر میت کا اچھی طرح جائزہ لینے لگا ۔۔قبر کے کتبے پر تو نواب صاحب کا ہی نام لکھا ہوا تھا ۔۔لڈن نے کہا کہ یہ کوئی عرب نوجوان لگتا ہے ۔۔عمر 25 سے 30 سال کے درمیان ہے ۔۔۔جبکہ نواب صاحب 47 اور 50 کے آس پاس تھے ۔۔
حافظ نے کہا ۔۔بس اب تم باہر آجاؤ ۔۔۔وہ جلدی ہی باہر آ گیا اور فوراً قبر بند کرنی شروع کر دی۔۔ہم سب خاموش تھے اور اس بات پر غور کر رہے تھے ۔۔کوئی کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا ۔۔ہم حویلی پہنچے۔۔ ہاتھ منہ دھویا اور بستر پر لیٹ گئے ۔۔صبح ہم نے واپس لکھنؤ آنا تھا ۔۔ لڈن کافی تھک گیا تھا۔۔ وہ لیٹتے ساتھ ہی سو گیا ۔۔
کچھ دیر بعد سلطان بھی سو گیا ۔۔حافظ نے کہا تم بھی اب سو جاؤ ۔۔صبح واپس بھی جانا ہے ۔۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی ۔۔میں نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا ۔۔میں نے سونے کی بہت کوشش کی مگر میرے دماغ میں کھلبلی مچی ہوئی تھی ۔۔یا اللہ یہ کیا اسرار ہے ۔۔فاطمہ کی میت اس کے تابوت میں نہیں۔۔ اس کی جگہ نواب یامین کی لاش۔۔۔ اور نواب یامین کی قبر میں کوئی اجنبی نوجوان جو کہ عربی نسل کا ہے ۔۔
۔اگر فاطمہ کی قبر میں نواب یامین کی لاش تھی تو اصول نواب یامین کی قبر میں فاطمہ کی میت ہونی چاہیے تھی مگر ایسا بھی نہیں ہے ۔۔۔ہم فاطمہ کی میت کہاں گئی ۔۔میرے ذہن میں بہت کشمکش تھی ۔۔انہی سوچوں میں پتہ نہیں کب مجھ پر ہلکی سی غنودگی طاری ہونے لگی ۔۔اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ۔۔۔۔کمرے میں ایک عجیب روشنی پھیل گئی ہے اور جیسے درودیوار سے بھینی بھینی خوشبو آنے لگی۔۔
میں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا تو اپنے قریب ہی سفید دھوئیں کا ایک بڑا سا دائرہ دیکھا جو ہوا میں تحلیل ہو گیا اور اس کی جگہ مجھے فاطمہ سفید براق لباس میں مسکراتی ہوئی نظر آئی۔۔ اس کو دیکھتے ہی میں نے کہا۔۔۔ ارے فاطمہ تم ۔۔۔تمہارے لیے تو میں بہت پریشان ہوں ۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ قاری صاحب مجھے آپ کی پریشانیوں کا علم ہے اور میں آپ کی اسی حیرانگی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے بھیجی گئی ہوں ۔۔جب لوگ گورا قبرستان میں میری تدفین کے بعد جا چکے۔۔۔تو چند لوگ میری قبر میں نمودار ہوئے ۔۔اور میرے جسد خاکی کو کھاٹ نما کسی چیز پر رکھا اور پھر مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھے لیے ہوا میں اڑے جا رہے ہوں ۔۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے کسی جگہ میری کھاٹ رکھ دی ہے ۔۔
ابھی وہ میری کھاٹ کے قریب سے ہٹے ہی تھے کہ مجھے قریب ہی چند برگزیدہ شکل و صورت کے لوگ گول دائرے کی صورت میں بیٹھے نظر آئے ۔۔۔ان کے چہروں سے عجیب طرح کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔۔۔ ان میں سے ایک نے پوچھا ۔۔””اسے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔۔””ان میں سے سب سے زیادہ نورانی صورت بزرگ نے فرمایا ۔۔۔****میں نے اسے دیکھنا چاہا تھا۔۔
کیونکہ اسے میرے دیکھنے کی تمنا تھی ۔۔۔اور ایسی تمنا تھی کہ اس نے اسے روگ بناکر جی کو لگا لیا تھا۔۔۔***
کسی اور نے فرمایا ۔۔۔بڑی بختاور ہے کہ اسے دیکھنے کی آپ نے تمنا کی۔۔مجھے ان کی باتیں سن کر اندازہ ہو گیا کہ میں کہاں ہوں اور یہ بزرگ ہستیاں کون ہو سکتی ہیں ۔۔
میری آنکھیں بار بار ان کی بلائیں لے رہی تھی اور میرا دل ان کے قدموں میں جھکا جارہا تھا ۔۔میرے دل میں رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ میں اپنے منزل مقصود کو پا چکی ہوں ۔۔یہ کہہ کر فاطمہ تھوڑی دیر کو رکی۔۔اس وقت بھی اس پر اسی کیفیت کا اثر تھا ۔۔۔
میں نے پوچھا ۔۔۔تمہاری باتوں سے تمہارے تابوت میں میت کی غیر موجودگی کا معمہ تو حل ہو گیا مگر اس ثبوت میں بارہ بنکی کے نواب یامین کی میت اور نواب یامین کی قبر میں کسی نوجوان کا معاملہ سمجھ نہیں آیا ۔۔
یہ الٹ کس نے کیا اور کیوں کیا۔۔۔وہ مسکرائی۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔قاری صاحب آپ نے سنا ہوگا کہ اللہ تعالی شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔۔
اس رات تین مرنے والوں کی میتوں کو ان کی اپنی قبروں سے نکال کر دوسری قبروں میں منتقل کیا گیا۔۔۔میرے تابوت میں آپ کو نواب یامین نظر آیا ۔۔۔نواب یامین تھا تو ہندوستانی ۔۔۔
مگر اپنے آپ کو ہر وقت انگریز بنائے رکھتا تھا۔۔۔۔اس کا رہن سہن۔۔طور طریقہ بالکل انگریزوں جیسا تھا ۔۔۔اس لئے اس کی موت کے بعد اسے انگریزوں کے قبرستان میں جگہ ملی۔۔۔اور اس کی اپنی قبر میں جو نوجوان دفن کیا گیا ۔۔۔وہ مرا تو مدینہ منورہ میں تھا ۔۔ اور اس کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی تھی ۔۔مگر اسے ہندوستان آنے اور اسے دیکھنے کی تمنا زندگی بھر تڑپاتی رہی۔۔۔
لہذا اسے اس کی اس خواہش کی تکمیل کے سلسلے میں ہی اسے جنت البقیع سے نواب یامین کی قبر میں منتقل کر دیا گیا ۔۔
۔اور اب آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ جنت البقیع میں اس عربی نوجوان کی خالی ہونے والی لحد میں کس کو جگہ ملی ہوگی ۔۔۔اور یہ سب کچھ اس کے علاوہ اور کون کرسکتا ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور جس کے قبضہ قدرت سے کچھ بھی ناممکن نہیں …
!!!صلی اللہ علیہ وسلم وخاتم النبین
Comments