fruit jam

How to start cooperative business model

مشترکہ کاروبار

گاؤں کے آٹھ سے دس متحرک نوجوان دو سے تین لاکھ فی کس ملا کر ایک کمپنی بناتے ہیں.

ہم اس کمپنی کا نام گلگت فروٹس پاکستان رکھتے ہیں. علاقے میں سب لوگوں کے پاس آڑو، سیب، خوبانی ،انجیر، آلو بخارے کے باغات یا درخت ہیں.

پانچ نوجوانوں میں سے دو لوگ جام بنانے کی ترکیب سیکھتے ہیں اور اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں. اور ایک چھوٹی سی مگر صاف ستھری جگہ پر جام بنانے کی کا ایک کوکر اور ایک فلنگ مشین لگاتے ہیں.

اور ایک سامان برداری کا رکشہ خرید لیتے ہیں. نوجوان اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریاں بانٹ لیتے ہیں.

دو لوگ جام بنانے کی، دو لوگ خام مال مہیا کرنے کی، تین لوگ بیچنے کی، اور دو لوگ پیکنگ اور سامان کی ترسیل وغیرہ کی.جبکہ ایک حساب کتاب کی ذمہ داری لے لیتا ہے

علاقے کے وہ لوگ جن کے پاس پھلوں کے کم مقدار میں درخت ہیں، وہ اپنا پھل دور دراز شہروں کی منڈی میں نہیں بجھوا سکتے، اور ان سے پھل اکٹھا کرکے منڈی لیجانے والے ان کو بہت کم معاوضہ دیتے ہیں، ان سے رابطہ کیا جائے گا.

کتّوں کیلئے کھانا نہ بنانے پر بھائی نے اپنی سگی بہن کو گولی ما ردی
مشروم اگانا بطور سائیڈ بزنس
لسی کی گولیاں اور تربوز کا پاؤڈر
آنلائن فروخت کا مستقبل

ممبران کی رجسٹریشن

– ان میں سے تیس لوگوں کو جو اس نظام کا حصہ بننے کو تیارہوں رجسٹر کر لیں

بغیر پلانٹ یا مشینوں کے پھلوں سے جام بنانے کے لیے سب سے زیادہ محنت پھلوں کو چھیل کر چھوٹے ٹکرے کرنے میں لگتی ہے. ان سب لوگوں کو یا ان کی خواتین کو پھل چھیلنے اور کاٹنے کی معمولی سی تربیت دی جائے گی.

اور ان کو مطلوبہ پھل کاٹنے والے انتہائی کم قیمت اوزار اور سٹین لیس سٹیل کے ٹریز قیمتاً مہیا کرے گی جس کی رقم بعد میں ان کے پھلوں کی قیمت سے منہا کردیے جائیں گے.

گلگت فروٹس پاکستان سب فروٹ سپلائرز کو دنوں کے حساب سے شیڈول مہیا کرےگی. کہ کون کس دن کونسا پھل مہیا کر ے گا.

جس شخص کو جو شیڈول ملے اس کے مطابق مطلوبہ پھلوں کو کمپنی کے مہیا کردہ سوڈیم ہائپوکلورائیٹ ملے پانی سے دھو کر چھیل کر مطلوبہ سائز میں کاٹ کر سٹیل کی ٹریز میں پیک کرکے کلنگ شیٹ میں لپیٹ کر تیار کرکے رکھ دیتے ہیں.

کمپنی کا رکشہ ان گھروں سے یہ پیک شدہ پھل اٹھا لاتا ہے. رکشہ والا پھل کے معیار اور مقدار کی جانچ کرنے کے بعد پانچ سو روپیہ چھلینے کاٹنے کی مزدوری اور پندرہ سو روپیہ ساٹھ کلو پھل بحساب پچیس روپے کلو فی کلو نقد ادا کرتا ہے. پچاس کلو کٹے پھل کی قیمت ساٹھ کلو کے حساب سے ادا کی جائے گی. کیونکہ اوسطاً بیس فیصد چھلکے اور گٹھلی نکلتی ہے. یاد رہے کہ آڑھتی موسم میں چھ سے دس روپے کلو خریداری کرتا ہے.

پانچ لوگوں سے ڈھائی سو کلو پھل اکٹھا کیا جاتا ہے. اس سے پچاس فیصد تناسب والا پانچ سو کلو عمدہ معیار کا جام تیار کیا جاتا ہے. جس سے 450 گرام کی 1100 بوتلیں بھرنے کے بعد گتے کے ڈبوں میں پیک کر دی جاتی ہیں.

بیس دنوں میں پانچ مختلف پھلوں کا دس ٹن جام یعنی 22000 بوتلیں تیار کی جاتیں ہیں. کمپنی کے شراکت داروں میں میں جن لوگوں کی ذمہ داری مارکیٹنگ کی ہے۔

وہ مختلف سٹورز کی چینز، بڑے ریسٹورنٹ اور ہوٹلز وغیرہ سے رابطہ کر کے انہیں سیمپلز بجھواتے ہیں. مختلف شہروں میں کھانے کی اشیاء کے تقسیم کنندگان سے بھی رابطہ کیا جاتا ہے.

سب لوگ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور کمپنی کے پیج سے بھی تشہیر کی جاتی ہے. اپنے نظام کی ویڈیوز اور معیار کے متعلق شواہدات کی مسلسل تشہیر کی جاتی ہے.

بازار میں دس فیصد پلپ والے مشہور کمپنیوں کے جام ایک سو اسی روپے سے دوسو پچاس روپے تک فروخت ہورہے ہیں.

ہم تھوک میں ایک سو بیس روپے فی بوتل میں فروخت کریں تو ہمیں تمام اخراجات نکال کر تینتیس روپے فی بوتل بچتے ہیں. یعنی 22000 بوتل جسم پر سات لاکھ چالیس لاکھ منافع ہوگا.

اس کے ساتھ ہی گاؤں کے دس گھروں میں دولاکھ روپے کی رقم بھی تقسیم ہوگی. اس سارے کام کیلئے جو اشیاء درکار ہوں گی.

فکس انوسٹمنٹ :جام بنانے کا ککر :-/200000 روپے فلنگ مشین : -/ 200000 روپے رکشہ : – / 200000 روپے جگہ وغیرہ. – /100000 روپے سرکولیشن :

پھل : – /

200000 چینی : -/400000 پیکنگ : – /

880000 پیکٹین

اور دیکر مرکبات : -/

170000لکڑی و دیگر اخراجات :

-/ 50000 سماجی ذرائع پر اشتہارات اور مارکیٹنگ اخراجات : -/ 200000

قیمت فروخت : 120 *22000 = – /2640000 متوقع منافع : -/ 740000 روپے

اگر معیار زبردست اور مارکیٹنگ کی ٹیم کی کارکردگی تسلی بخش رہی تو پھلوں کے موسم میں کم از تین بار یہ سارا عمل کیا جاسکتا ہے. جس کا مطلب بائیس لاکھ منافع.

اگلے سال ظاہر ہے اس سے کہیں بہتر اور زیادہ کارکردگی ہوگی. کوئی بعید نہیں کہ چند سال میں اس کا شمار پاکستان کی بڑی فوڈ کمپنیوں میں ہو. اسی طرز پر چترال کے لوگ چترال فوڈز کے نام سے شروع کرسکتے ہیں.

کیوی پھل کی کاشت

ہر سال پولو میں ایک دوسرے کے مقابل آنے والے کیا معلوم خوشحالی اور برآمدات میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش میں لگ جائیں. یہ صرف ایک مثال ہے اس طرز پر کوئی بھی کام کسی بھی شہریار گاؤں میں کیا جاسکتا ہے.

  1. دائرے سے باہرنکلو اور کچھ نیا کرنا ہو گا
  2. سوچ بدلو ۔ زندگی بدلو
  3. تخم ملنگاں کاشت کریں اور ایک لاکھ سے زیادہ فی ایکڑ آمدن
  4. سیب کے سرکہ اسکی گھریلو پیمانے پر تیاری

ایک دوسرے پر اعتماد کرکے ملکر کام کرنے سے جس قدر جلد اور زبردست کامیابی حاصل ہوتی ہے، اکیلے میں اس کے امکانات منطقی طور پر بھی کم ہوتے ہیں. اور مشاہدہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے.

About the author: Shabnam Nazli
I am also happy

Comments

No comments yet