Syed Anees shah jeelani

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

انیس ادب.. سید انیس شاہ جیلانی
تحریر مرزا حبیب

سال 2017عید الفطر محروم مظلوم خوشیوں کو ترسے پسماندہ سرائیکی خطہ کیلۓ کسی قیامت صغری سے کم ثابت نا ہوئی کہ عید کے روز اس خبر نے پورے وسیب کو مزید سوگوار کر دیا کہ اردو ادب کے بین الاقوامی شہرت یافتہ انشاء پرداز،خاکہ نگار،ادب نواز شخصیت،سرائیکی کے صاحب اسلوب ادیب،ماہرلسانیات ،خاکہ نگار سید انیس شاہ جیلانی عید کے روز 26 جون 2017 بروز سوموار مختصر علالت کے بعد شیخ زاید ہسپتال رحیم یارخان میں انتقال فرما گۓ
انا للہ وانا علیہ راجعون۔

سید انیس شاہ جیلانی


سید انیس شاہ جیلانی ،اردو ادب کے شیدائی،ادب نواز شخصیت، بانی مبارک اردو لائبری قائم شدہ 1926ء ریاست بہاول پور کے پہلے ادبی جریدے”لالہ صحرا” کے مدیر سید مبارک شاہ جیلانی رح کے گھر 23 اکتوبر 1937ء کو محمد آباد سنجر پور تحصیل صادق آباد میں پیدا ہوۓ گھر میں علم و ادب اور روحانیت و تصوف کا چرچا تھا اس لۓ متائژ ہوۓ بغیر نا رہے۔

سید انیس شاہ جیلانی کی تعلیم وتربیب اور نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں سید مبارک شاہ “معاصرین مبارک” میں سید انیس شاہ جیلانی کی زیل میں لکھتے ہیں
‏”مجھے میرانیس سے محبت ہے انکی شاعری سے شیفتگی ہے انیس اس لۓ ان کا نام تجویزکیا کہ یہ بڑے ہوکر میرانیس کی خوبیوں کا حامل بنے ان کی اتباع کرکے شاعر اعظم بنے اس نے مدرسہ محمد آباد میں پانچویں پاس کی تو سید رئیس احمد جعفری کے حوالے کردیا ۔

وہاں اسکول میں میں بھی داخلہ لے لیا…جعفری کی رفاقت اور ان کے ساتھ یکجائی سے یہ فائدہ رہا کہ اردو اسکے مادری زبان بن گئ اردو سے طبعی لگاؤ ہے مشاہیر اہل قلم سے مراسلت رکھتے ہیں خود بھی اچھا لکھتے ہیں اور ادبیات کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں کتب بینی،فراہمی کتب سے انہیں عشق ہے مشاہیر سے ملاقاتیں رکھتے ہیں مجھے مسرت ہے کہ میری طرح ان کی اردو سے وابستگی ہے مجھے اطمینان ہے کہ میرے بعد لائبریری کی دیکھ بھال مجھ سے زیادہ کرنے والا موجود ہے”

اسی طرح جب سید انیس شاہ جیلانی کا پہلا مضمون جب 1964ء میں لیل و نہار میں چھپا تو اس پر سید مبارک شاہ جیلانی رح نے”معاصرین مبارک میں لکھا کہ”جنوری کے آخری ہفتہ میں لیل و نہار کا جو پرچہ نکلا اس میں نورچشم انیس سلمہ کا مضمون چھپا ہے ان کا یہ پہلا مضمون ہے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ مضمون نگار بن گۓ میرے خواب کی یہ حسین تعبیر نکلی …اللہ کا شکر ہے کہ زندگی میں دعاؤں کا ثمر دیکھ لیا”۔


سید انیس شاہ جیلانی کا عہد شباب کراچی میں رئیس احمد جعفری کے ہاں گزرا وہاں آپ لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ معاصر مشاہیر ادیبوں کی صحبت و قربت سے مستفیذ ہوتے رہے۔


رئیس امروہوی،نیازفتح پوری،شکیل عادل زادہ،عبیداللہ علیم،قدرت نقوی،انورشعور،جون ایلیا،زاہدہ حنا،مہرغلام رسول،ڈاکٹرنبی بخش بلوچ،امیرحمزہ شینواری ،صادقین سمیت اعلی پاۓ کے 250 سو علمی و ادبی شخصیات سے محبت و قربت اور قلمی رفاقت رہی آپ نے زندگی میں ہزاروں خطوط لکھے جن پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے ایم فل کا مقالہ تحریر کیا۔

صرف رحیم یارخان کے رہائشی منشی محمد علی پٹواری کے نام تین ہزار سے زائد خط اور پوسٹ کارڈ موجود ہیں اسطرح راقم الحروف مرزا حبیب کے نام بھی بیسیوں خطوط لکھے جو میرے لۓ باعث افتخار ہے
‏1990ء کی دہائی کے بعد آپ نے سرائیکی میں لکھنے کو ترجیح دی۔


‏ آپ نے اپنے والد صاحب کا ادبی مجلہ “لالہ صحرا”جو 1933ء میں ریاست بہاول پور سے شائع ہوا اور ریاست کا پہلا ادبی پرچہ تھا دوبارہ بطور مدیر یکم جنوری 1987ء میں دوسری اشاعت کی مگر بدقسمتی سے یہ سلسلہ جاری نا رہ سکا
آپ کی مطبوعہ تصنیف و تالیف بیس کے قریب ہیں جبکہ تقریبا پندرہ کت غیرمطبوعہ ہیں۔

مبارک لائبریری، سنجر پور، صادق آباد


آپ کے چند معروف تصانیف و تدوین میں ، نوازش نامے، آدمی غنیمت ہے(خاکے) محفل دیدم، سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان، آدمی آدمی انتر، کاغذی ہے پیراہن، ہندوستان کا ابن تیمیہ، غالب کی دشنام طرازیاں، دھرتی مانگے دان، غیرمطبوعہ خاکے(انتخاب) خطوط ثمینہ راجہ، بخدمت جناب رئیس امروہوی،معاصرین مبارک، دیوان حیرت شملوی(مرتبہ) اور سرائیکی میں مہانڈرا ڈیکھنس، مڑدنگ خاکوں پر مشتمل کتابیں ہیں جو ایم اے سرائیکی نصاب کا حصہ ہیں اسی طرح آپ کی مہر غلام رسول کے ساتھ خط و کتابت ایم اے اردو کے نصاب میں شامل ہے۔
آپ کے مضامین معروف ادبی پرچوں ،افکار،لیل و نہار، نگار،زاویہ، روزنامہ جھوک سمیت بیسیوں ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہیں جبکہ آپ کی زیر سرپرستی کئ مقامی سرائیکی علمی و ادبی رسالے جاری رہے۔
راقم الحروف مرزا حبیب سے شاہ صاحب کا تعلق بیس سال قبل قائم ہوا میں نے ہمیشہ آپ کی صحبت وسنگت سے بہت کچھ سیکھا اکثر میری تحریر پڑھ کر اس پر نقد و تنقید کے ساتھ خوشی کا اظہار فرماتے اور مفید مشورے عنائیت فرماتے خصوصا لکھنے کی تحریک دیتے
میری دلچسپی یا پسندیدہ موضوع پر کوئی کتاب نظر سے گزرتی تو منگواکر مجھے بذریعہ ڈاک ارسال فرماتے اور سب سے بڑھ کر مجھے میری کم مائیگی و کم علمی کے باوجود مجھے اپنا دوست گردانتے
سرائیکی خطے کا نابغہ عصر ادیب 26 جون 2017 بروز پیر ہمیں ہمیشہ کیلۓ داغ مفارقت دیا گیا اناللہ وانا علیہ راجعون۔


مبارک اردو لائبریری کے سامنے 11بجے دن آپ کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جس میں راقم سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی آپ کے دادا پیرسید محمدشاہ جیلانی رح کی قائم کردہ خانقاہ محمدآباد میں روضہ اقدس کے ساتھ تدفین کی گئ.


آپ نے پسماندگان میں ایک بیٹی اور چار صاحبزادے
سید ابولکلام شاہ، سیدابوالفضل شاہ،سید ابوالبشر شاہ ایڈوکیٹ(پہلے سرائیکی ڈائجسٹ”نویکلا” کے مدید) ڈاکٹر سید ابوالحسن شاہ(کالم نگار/مضمون نگار) اور پچاس سالہ رفاقت کے حامل ہندو خدمتگار امیندا جی شامل ہیں جبکہ آپ کی وفات سے پورا سرائیکی وسیب یتیم ہوگیا
دعا ہے کہ اللہ آپ آپ کے درجات بلند فرماۓ.

آپ کا علمی و ادبی مبارک اردو لائبریری کی شکل میں تاقیامت جاری رہے.آمین

About the author: Shah Mahar

No Gain Without Pain
I am a Muslim and Love Muhammad

Comments

No comments yet