بھیں کے پکوڑے اور مہنگا ترین ریشم

. بھیں کے پکوڑے اور مہنگا ترین ریشم

جھنگ کے ایک سبزہ زار میں کسی کے انتظار میں بیٹھا تھا. سبزہ زار کے دامن میں انگنت چھوٹی چھوٹی جڑی بوٹیاں اگی تھیں. اتنی چھوٹی کہ گھنی گھاس میں ان کو علیحدہ سے پہچان کرنا بھی عمیق نظری کا متقاضی تھا.

ان بوٹیوں میں سے کچھ پر بالکل چھوٹے چھوٹے کاسنی اور جامنی پھول بھی کھل رہے تھے.

جی میں آئی اللہ کریم کی یہ تخلیق بھی اس کارگہہ حیات میں عبث نہ ہوگی.

پھر ان کی قسمت پر ترس آیا کہ کہیں گورے کے دیس میں ہوتیں تو اب تک ان کی ساخت، ہیئت اور افادیت واستعمال پر درجنوں مقالہ جات لکھے جا کے ہوتے. کہیں ان سے ادویات بنتیں کہیں عطر. مگر یہاں تو شاید ابھی ان کے نام بھی نہیں رکھے جاسکے ہوں گے.

پھر یوں ہوا کہ ہمارے ایک میزبان نے ہمیں کھانے میں ایک طرح کے پکوڑے پیش کیے. بہت خستہ، کرارے اور لذیذ. بتایا گیا کہ یہاں اسے بھِیں کہتے ہیں اور بِھیں کے پکوڑے اس علاقہ کی خاص سوغات ہے .

معلوم ہوا کہ کنول کے پودے کی جڑ کو مقامی زبان میں بھیں کہتے ہیں. اور اسے کیچڑ میں سے نکال کر کاٹ دھو کر بطور سبزی استعمال کیا جاتا ہے.

کنول سے ہم واقف ہی ہیں کہ پانی کے جوہڑوں میں اگتا ہے. اور اس کا بے حد خوبصورت پھول سردیوں میں زبردست نظارہ دیتا ہے. سوچا کہ ایک پوری پودوں کی قسم خدائے بزرگ وبرتر نے صرف اس لیے تو تخلیق نہ کی ہوگی کہ جھنگ والے اس کی جڑ کے پکوڑے کھا سکیں. یقیناً اس کی متنوع افادیت رہی ہوگی.

اب معلوم ہوا کہ دنیا کا مہنگا ترین ریشم اس بھیں کے تنے میں قدرت نے چھپا رکھا.. اور ویت نام اور میانمار میں اس کی باقاعدہ گھریلو صنعتیں قائم کی جاچکی ہیں. کنول کے پودے سے حاصل کیا گیا ریشم، ریشم کے کیڑے سے ملے ریشم سے زیادہ ملائم، زیادہ مضبوط اور لچکیلا ہوتا ہے. اس کا ایک فٹ چوڑا تین فٹ لمبا ایک پارچہ دوسو ڈالر کا فروخت ہوتا ہے.

کنول کے تنے میں لیس دار گودا ہوتا ہے. جب ہری شاخ کو کاٹ کر کھینچے ہیں تو اس میں موجود گودا باریک دھاگوں کی صورت ان کے ساتھ کھینچتا چلا جاتا ہے جسے لکڑی کی کسی سطح پر ہاتھ سے مل کر دھاگے کی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے. بہت سے دھاگے اکٹھے کرکے انہیں خشک کرنے کے بعد باٹ کر چرخی پر لپیٹ لیتے ہیں. جس سے ہاتھ کی کھڈیوں پر کپڑا بنالیتے ہیں.

میرا خیال ہے کہ چونکہ گاؤں کی سطح پر لوگوں نے خود سے اپنی مدد آپ کے تحت ریشم حاصل کرنے کا یہ طریقہ ایجاد کیا ہے اس لیے اس میں مشقت زیادہ ہے. اگر یونیورسٹی کے طلبا اس پر باقاعدہ سائنسی انداز میں کام کرکے اس میں سےلیس دار مادہ الگ کرلیں اور پولی ایسٹر دھاگہ بنانے والے سپنریٹس پر اس کے فائبر بنالیے جائیں تو بہت ہی زبردست دھاگہ کم مشقت میں وافر مقدار میں حاصل کیا جاسکتا ہے. پاکستان میں دریاؤں کے کنارے اور جھیلوں میں ہزاروں ایکڑ پر قدرتی کنول موجود ہے.

یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء کو دعوت عمل ہے. لیکن جب تک کوئی باقاعدہ تکنیک دریافت نہیں کرلی جاتی جس طرح ویت نام اور میانمار کے لوگ ہاتھوں سے بنارہے ہیں ہمارے بے روزگار، فارغ لوگ تب تک اسی طریقے سے اپنا روزگار تو کما ہی سکتے ہیں.

اور آخر میں ایک سوال.. کہ کیا وجہ ہے کہ کنول کے ریشم کو لے کر جو بات میانمار اور ویت نام کے دیہاتی، پسماندہ لوگوں کے ذہنوں میں آئی ہمارے کسی سیانے کو بھی نہیں سوجھی. وجہ شاید وہی کہ ہم غور نہیں کرتے.

(ابن فاضل)
#ابن_فاضل

About the author: Shah Mahar

No Gain Without Pain
I am a Muslim and Love Muhammad

Comments

No comments yet