نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان جو اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوئے
’بھیگے بادام اور گاجریں‘ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کی صبح جسم و جاں میں توانائی کے خزانے بھر دینے والی اِن نعمتوں سے ہوا کرتی تھی۔
26 نومبر 1967 کی صبح بھی نواب کے ذاتی ملازم خدا بخش معمول کے مطابق اُن کے کمرے میں داخل ہوئے،
سجی سجائی سینی (گول ٹرے) ان کے سامنے رکھی اور باہر آ کر سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔

معمول یہ تھا کہ نواب صاحب جیسے ہی گاجر کا آخری ٹکڑا چبا لیتے،
ملازم کو بُلا کر برتن اٹھا لینے کی ہدایت کرتے لیکن اُس روز معمول میں کچھ فرق آ گیا۔
اُس روز کچھ گاجریں اور بادام ابھی باقی تھے کہ خواب گاہ کے باہر شور سُنائی دیا
۔ پتا چلا کہ نواب صاحب کے دو فرزند دروازے پر کھڑے ہیں اور کہیں جانے کے لیے نواب صاحب کی جیپ طلب کر رہے ہیں۔
نواب صاحب نے چابی ان کے حوالے کر دی۔ جیسے ہی چابیاں اُن کے ہاتھ میں آئیں،
وہ دونوں گاڑی کی طرف جانے کے بجائے خواب گاہ کے دروازے کی طرف بڑھے اور ہیجانی انداز میں اسے کھولتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔
نواب امیر محمد خان کے سوانح نگار سید صادق حسین شاہ نے اپنی کتاب ’نواب آف کالاباغ‘ میں یہ واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔
نواب صاحب کے بوڑھ والے بنگلے میں، جہاں وہ کبھی سعودی عرب کے شاہ فیصل، ایوب خان، اسکندر مرزا، ذوالفقار علی بھٹو، امریکی خاتون اوّل مسز روز ویلٹ سمیت کئی
دوسری عالمی شخصیات کی میزبانی کر چکے تھے،
گذشتہ کئی روز سے کشیدگی کے آثار تھے۔
اس کشیدگی کے پتا بنگلے کے مکینوں کے علاوہ ملازمین کے چہروں سے بھی عیاں تھا۔
سوانح نگار سید صادق حسین شاہ کے مطابق نواب صاحب کے دو بیٹوں نوابزادہ مظفرخان اور نواب زادہ اسد خان کی اپنے والد کے کمرے میں یہ گستاخانہ انٹری اسی کشیدگی کا تسلسل تھی۔
اس کے فوراً ہی بعد باہر سیڑھیوں پر بیٹھے خدا بخش کو کمرے سے تلخ کلامی کی آوازیں سنائی دیں، اس کے بعد فائرنگ کی۔
’اوئے، کے پئے کریندے او؟‘ (ارے، کیا کررہے ہو؟)۔
خدا بخش کے کانوں میں نواب صاحب کا جب یہ جملہ پڑا تو وہ بھی کمرے میں داخل ہو گئے،
نوابزادہ مظفر نے انھیں بالوں سے پکڑ کر صوفے پر پٹخا
اور کہا ’کسی کو بتایا تو اس سے بھی بُرا حشر کروں گا۔‘
اسی دوران اور ایک اور ملازم عالم خان کمرے میں داخل ہوا،
اسے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ ’کمرے سے نکل جاؤ، نواب صاحب کو دورہ پڑ گیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق دونوں بیٹے اس وقت تک کمرے میں موجود رہے جب تک روح نواب کے جسم سے پرواز نہیں کر گئی۔
آخر ایسا کیا اختلاف تھا جس کی وجہ سے معاملات ایسی انتہا پر جا پہنچے کہ بیٹے اپنے باپ کی جان کے درپے ہو گئے؟
سید صادق حسین شاہ نے کئی برس گزرنے کے بعد یہ سوال نوابزادہ اسد خان سے پوچھا
جو اپنے والد کے قتل کے الزام میں نامزد رہنے کے بعد عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو چکے تھے۔
نوابزادہ اسد نے سوانح نگار کے سوال کا براہ راست کوئی جواب دینے کے بجائے کہا
کہ ان کے تو اپنے والد سے کوئی اختلافات نہ تھے،
البتہ بھائی نوابزادہ مظفر خان کو ان کی پالیسیوں سے کچھ اختلاف تھا جس کا اظہار وہ برملا کیا کرتے تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ وقوعہ کے روز انھوں نے اپنے بھائی کو والد کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا تو وہ بھی ان کے پیچھے چلے گئے۔
پہلے خود نواب صاحب (یعنی ان کے والد) نے فائرنگ کی، ایک گولی انھیں (یعنی نوابزادہ اسد) کے بازو میں لگی اور دوسری قریبی دیوار میں پیوست ہو گئی۔
جواب میں نوابزادہ مظفر نے پانچ گولیاں چلائیں، نہایت قریب سے چلائی گئی بریٹا پستول کی گولیاں نواب صاحب کی جان لے گئیں۔
نواب صاحب کی وہ کیا پالیسیاں تھیں، نوابزاد ہ مظفر کو جن سے اختلاف تھا؟
مصنف کے مطابق نواب صاحب جن دنوں پنجاب کے گورنر تھے،
’ریاست‘ کالاباغ کا تمام تر انتظام ان کے بیٹوں کے ہاتھ میں آ گیا جس کے نتیجے میں ضلع میانوالی میں جبر کی فضا قائم ہو گئی
اور نواب زادگان نے سیاسی مخالفین کو زور زبردستی راستے سے ہٹا دیا یا مخالفین کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
نواب صاحب گورنر کا منصب چھوڑ کر واپس کالاباغ پہنچے تو اِس صورت حال کو انھوں نے اپنے لیے ناخوش گوار پایا۔
انگریزی اخبار’دی نیشن‘ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں وراثت کی تقسیم سے متعلق اختلافات کا بھی ذکر کیا ہے
جن کے مطابق نواب صاحب نے کچھ ایسے اشارے دیے تھے کہ وہ اپنی جائیداد اپنے بیٹو ں کو منتقل کرنے کے بجائے براہ راست اپنے پوتوں کے نام کر دیں گے،
یہی اختلاف تھا جو اِن کی جان لے گیا۔
یہ شخص جو یوں ایک صبح بے بسی کے ساتھ مارا گیا، کبھی اتنا طاقتور تھا کہ مغربی پاکستان میں اس کی اجازت کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا تھا۔
یہ شخص سیاست میں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن یہ دیکھ کر کہ اس زمانے کے وزیر اعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ اراکین اسمبلی کے سوا کسی دوسرے کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیتے،
وہ انتخاب لڑ کر اسمبلی میں پہنچ گئے لیکن بعد میں حکومت نے انھیں وزیر بنانا چاہا تو ان کی انا آڑے آئی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسکندر مرزا ملک کے صدر اور ایوب خان سیاہ و سفید کے مالک تھے۔
بیرون ملک جاتے ہوئے اسکندرمرزا سے کہہ گئے
کہ نواب آف کالاباغ کو مرکز میں وزیر بنا لیا جائے۔
یہ پیشکش ان تک پہنچائی گئی تو کہا میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ ٹکے ٹکے کے ممبران اسمبلی کے سوالوں کے جواب دوں
اور بات بات پر جناب سپیکر، جناب سپیکر کی گردان کروں۔
تاہم ایوب خان نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد انھیں گورنر مغربی پاکستان بننے کی پیشکش کی تو اسے قبول کرنے میں انھیں کوئی تامل نہ ہوا۔
یہ منصب ان کے مزاج کے مطابق تھا کیونکہ انھیں یہاں کسی کو جواب نہیں دینا تھا، سب ان کے سامنے جوابدہ تھے۔
پنجاب کا یہ جدی پشتی جاگیردار اقتدار کے ایوان میں داخل ہوا تو اس کے انداز بڑے جداگانہ تھے۔
انھوں نے پابندی عائد کر دی کہ خاندان کا کوئی شخص بھی گورنر ہاؤس میں داخل نہیں ہو گا۔
ایک بار کوئی سفر درپیش تھا، صورتحال کچھ ایسی بنی کہ ان کے ایک صاحبزادے کو ان کی گاڑی میں بیٹھنا پڑا،
انھوں نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر والد کے برابر بیٹھنا چاہا تو انھیں وہاں سے اٹھا دیا
اور کہا کہ یہ جگہ ملٹری سیکریٹری کی ہے، تم اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھو۔
.#pkvillage #nawab #kalabagh #kill
Comments