ضمیر کی آواز پر پارٹی تبدیل کرنے کا موسم

” ضمیر کی آواز ؟؟؟”

تحریر:- عزیزخان ایڈوکیٹ لاہور

ضمیر کی آواز پر پارٹی تبدیل کرنے کا موسم پھر آگیا ہے سُنا ہے ہمشہ اقتدار میں رہنے والے اور پی ٹی آئی کی حکومت میں چار سال مزا لوٹنے والے ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان ضمیر کی آواز پر ایک دفعہ پھر مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی میں جانے کا سوچ رہے ہیں بلکہ کُچھ تو شاید اب تک چلے بھی گئے ہوں گے

پاکستانی سیاست میں ضمیر فروشی کی کئی داستانیں ہیں مگر جس دیدہ دلیری سے ایم این اے کے ووٹوں کی خرید وفروخت سینٹ کے الیکشن ہوئی اُسکی نظیر نہیں ملتی .

سینٹ کے الیکشن میں سات ایم این اے صاحبان نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا ووٹ ضائع کیا اور پھر نو ممبران نے اپنا ووٹ سید یوسف رضا گیلانی کو دے دیا.

اسی طرح کُچھ عرصہ قبل سینٹ کے چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بھی بیس سینٹرز نے جب اپنے ضمیر کی آواز پر اپنا ووٹ بیچ دیا اور تحریک ناکام ہوئی تو سب ششدر رہ گئے کہ یہ کیا ہو گیا ہے ؟؟

مگر نہ تو اُسوقت کسی نے ان ضمیر فروشوں کی نشاندہی کی نہ اب ان بے ضمیروں کا کوئی کُچھ کر پائے گا.

“اسی ضمیر کی آواز “پر میں جو تحریر لکھ رہا ہوں شاید اس سے بہت سے دوست اتفاق نہیں کریں گے مگر یہ ہمارے وطن عزیز کے سیاستدانوں کے وہ اصل اور مکروہ چہرے ہیں جن کی حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا یہ ضمیر اچانک کیسے جاگ اُٹھتا ہے اور پھر سو جاتا ہے یہ سب کو معلوم ہے مگر اسے ثابت کرنا بہت مشکل کام ہے

1988 کے الیکشن میں چھانگا مانگا آپریشن کے بعد میاں نواز شریف چیف منسٹر پنجاب منتخب ہو گئے تھے جبکہ وفاق میں عوامی مقبولیت اور اسمبلی میں اکثریت کی وجہ سے محترمہ بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئ تھیں مگر نواز شریف صاحب بینظیر صاحبہ کی حکومت کو ماننے کو تیار نہ تھے.

وہ خود کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے میاں نواز شریف صاحب کو فوج کی بھر پور حمایت حاصل تھی جنرل جیلانی صاحب بھی ابھی زندہ تھے چناچہ نواز شریف نے بینظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا بہت سے ایم این اے صاحبان کے ضمیر اچانگ جاگ اُٹھے .

جن میں رحیم یار خان سے سردار رئیس شبیر احمد اندھڑ مخدوم احمدعالم انور اور پاکپتن سے غلام محمد مانیکا بھی شامل تھے اور یہ پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر IJI میں شامل ہو گئے.

نواز شریف نے اپنے ممبران کو مری اور بلوچستان ہاوس اسلام آباد شفٹ کر دیا گیا تاکہ وہ کسی سے مل نہ سکیں جبکہ بینظیر صاحبہ نے اپنے ممبران سوات بھجوا دیے تاکہ عدم اعتماد کے دن یکم نومبر کو اکٹھے لائے جائیں
نواز شریف کے پاس عدم اعتماد کے لیے ممبران کی تعداد پوری تھی.

پھر اچانک ایک عجیب واقعہ ہوا رئیس شبیر احمد ،مخدوم احمد عالم انور اور غلام محمد مانیکا رات کی تاریکی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بلوچستان ہاوس اسلام آباد کے کمروں کی پچھلی کھڑکیوں سے فرار ہو کر دوبارہ پیپلز پارٹی میں چلے گئے کیونکہ اُنکا ضمیر پھر جاگ گیا؟؟؟؟

تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی مگر میاں صاحب نے بینظیر کی حکومت کو چلنے نہ دیا اُنکو صدر اسحاق خان فوج اور عدلیہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی حکومت کو کرپٹ اور نااہل قرار دیتے ہوئے صدر پاکستان نے برخواست کر دیا.

ان ایم این اے صاحبان کے دھوکا دینے کا میاں صاحب کو بہت دُکھ ہوا اور پھر انہوں نےجنوبی پنجاب کے کسی بھی سیاستدان پر اعتماد نہ کیا.

حکومت بنانے کے لیے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ایم این اے صاحبان و ایم پی اے صاحبان کو اپنے ساتھ رکھنا پڑتا تھا مگر اس حادثہ کے بعد جنوبی پنجاب کا رہنے والا کوئی بھی سیاستدان میاں صاحبان کا قرب حاصل نہ کر سکا اور اس نفرت کا اظہار میاں نواز شریف ہمیشہ کرتے رہتے ہیں.

جنوبی پنجاب کا صوبہ نہ بننا اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا بھی اُسی نفرت کا نتیجہ ہے .

با ضمیر اور بے ضمیر ہونے میں صرف “الف “اور “ے “کا فرق ہے مگر یہ لوگ سمجھ نہیں پاتے جس کو یہ ضمیر کی آواز کہتے ہیں دراصل وہ نوٹوں کی آواز ہوتی ہے جو مرتے دم تک ذلت بن کر انکا پیچھا کرتی رہتی ہے

About the author: Shah Mahar

No Gain Without Pain
I am a Muslim and Love Muhammad

Comments

@peepso_user_50(sajid Malik)
Nice
05/03/2022 2:06 pm
@peepso_user_134(Azam Khan)
Nice 👍
05/03/2022 4:26 pm