*ریمانڈ جسمانی اور مُصطیٰ کورائی*
تحریر :-عزیزخان ایڈووکیٹ لاہور
رحیم یار خان میں میری پوسٹنگ تھانہ رکن پور ہوئی تھانہ رکن پور دریائے سندھ کے ساتھ واقعہ ہے یہ ایک دیہاتی تھانہ ہے جہاں سرقہ مویشی کی وارداتیں بُہت زیادہ ہوتی تھیں اور منشیات کا کاروبار بھی بہُت زیادہ تھا
اس تھانہ میں میانوالی قریشیاں بھی ہے جہاں مخدوم صاحبان کے آبائی گھر ہیں ان میں مخدوم خسرو بختیار ،مخدوم عمادالدین ،مخدوم مشرف ،مخدوم شہاب قابل ذکر ہیں
سیاسی اعتبار سے بھی یہ ضلع کا مُشکل ترین تھانہ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ مخدوم صاحبان کی بُہت زیادہ سیاسی مداخلت ہوتی ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ووٹرز اور وڈیروں کی ناجائز باتیں ماننے پر مجبور ہوتے ہیں ورنہ الیکشن میں انہیں اپنی ہار نظر آتی ہے
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سارے مخدوم صاحبان ایک دوسرے کے سیاسی مخالف ہوتے تھے جو اب بھی ہیں ایک پیپلز پارٹی تو دوسرا ن لیگ میں ہوتا تھا تحریک انصاف تو تھی ہی نہیں
مگر اب تحریک انصاف کا اقتدار بھی اپنے بھر پور جوبن پر ہے
پہلے ن لیگ پھر ق لیگ پھر پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف میں اقتدار کا مزا لینے والے مخدوم خسرو بختیار جو اب بھی منسٹر ہیں اپنی (اعلیٰ کارکردگی ) کی وجہ سے سیاسی میدان میں اپنے سیاسی حریف مخدوم صاحبان کو دولت اور سیاست میں بُہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں
مخدوم صاحبان الیکشن میں دن کو تو ایک دوسرے کے مخالف ہوتے تھے مگر شام کا کھانا اکٹھے کھاتے تھے اور صرف عوام کو بےوقوف بنانے کی کوشش کرتے تھے امید ہے اب بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا ؟
تھانہ رکنپور میں مُختلف قومیں آباد ہیں جن میں زیادہ تر دشتی ، کورائی، سانگی، مستوئی قبیلے ہیں ان کی وفاداریاں ویسے تو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہیں مگر یہ سب اقتدار کی ہوا اور خوشبو کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں
ان قوموں میں بُہت سے جرائم پیشہ افراد بھی تھے جو سرقہ مویشی ڈکیتی نقاب زنی کرتے تھے
علاقہ تھانہ میں نقب زنی اور سرقہ مویشی کی واردات بُہت زیادہ ہو رہی تھی ہمارے ایس ایس پی تحسین انور شاہ تھے جو بُہت سخت طبیعت کے مالک تھے میری پوسٹنگ کر کے مجھے کہا کہ اب وہاں واردات نہیں ہونی چاہیے تھانہ رکن پور منشیات فروشوں کے لئیے بھی جنت تھا یہاں منشیات کی بھاری مقدار علاقہ غیر سے آتی تھی
دشتی اور دیگر اقوام پولیس کے ریڈ کرنے پر عورتوں کو جھانبے (لکڑیاں) دے کر آگے کر دیتے تھے خود بھی ساتھ شامل ہوتے تھے چنانچہ کم نفری کے ساتھ ان پر ریڈ کرنا ہمیشہ خطرناک ہوتا تھا
میں نے آتے ہی محرر سے تھانہ کے بدمعاشان اور جرائم پیشہ افراد کی لسٹ بنوائی
بدمعاش بستہ الف اور ب کو ہر جمعہ کو تھانہ کا پاپند کروایا کہ وہ سارا دن تھانہ پر حاضر رہیں اور تھانہ کی صفائی کریں اور اگر گھر سے کہیں باہر جائیں تو تھانہ پر محرر کو بتا کر جائیں
اسی طرح ریکارڈ یافتہ افراد کے گھروں پر ریڈ کرنے شروع کروا دیے گشت کے نظام کو موثر کیا خود بھی رات رات بھر جاگتا تھا اور تھانہ کا عملہ بھی میرے ساتھ جاگ رہا تھا
اور اس طرح علاقہ کے تقریباً تمام چور بدمعاشوں کو تھانہ پر اکٹھا کر لیا
ان جرائم پیشہ افراد میں مُصطیٰ کورائی نازو کورائی اللہ دتہ دشتی اور بُہت سے شامل تھے
میرے اس عمل سے چوری تو رُک گئی مگر رسہ گیر وڈیروں کو بُہت تکلیف ہوئی اور مجھے میانوالی قُریشیاں سے بذریعہ مُنشی صاحبان سفارشیں موصول ہونا شروع ہو گیں
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر مخدوم کا ایک مُنشی ہوتا تھا جو مخدوم صاحب کی پیغام براری کرتا تھا اور اکثر تھانہ پر سائلین کے ساتھ تھانہ پر مُنشی آیا کرتے تھے اور مخدوم صاحبان کا پیغام دیا کرتے تھے تھانہ کے اندرونی و بیرونی حالات کا جائزہ لینا تھانہ کے عملہ اور SHO کے بارے میں معلومات رکھنا بھی انہیں مُنشی صاحبان کے کام میں شامل ہوتا تھا
ہمارے ہاں ریمانڈ جسمانی کا نام سُنتے ہی پولیس کا چھتر اور ایک بڑی موچھوں والے پولیس والے کا تصور ذھن میں آتا ھے جو ہر ملزم سے تشدد کے ذریعےاصل حقیقت معلوم کر لیتا ہے
پولیس کے بارے میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ وہ جو بھی منوانا چاہیں منوا سکتے ہیں
پولیس میں آنے سے پہلے اور بعد شروع شروع میں مجھے بھی ایسا ہی لگا مگر بڑے بڑے عادی مجرمان کے ساتھ پالا پڑا تو احساس ھوا کہ عام ملزم اور چالاک عادی ملزم میں کافی فرق ہوتا ہے
عام اور نیا ملزم صرف ڈرانے سے سب کُچھ بتا دیتا ھے مگر عادی ملزمان باوجود تھرڈ ڈگری کُچھ بتانے کو تیار نہیں ہوتے جن کو پھر نفسیاتی حربوں سے قابو کیا جاتا ہے
مجھے آج بھی تھانہ رکن پور رحیم یار خان کا وہ ملزم مُصطفی عرف مُصطیٰ کورائی یاد ہےجس کے خلاف مویشی چوری کے اور دیگر 80 مقدمات تھے مذکورہ بھی حوالات تھانہ میں بند تھا
ایک دن شام کو میں نے اُسے حوالات سے نکلوا کر وارداتوں کے متعلق پوچھنا شروع کیا تو وہ مُجھ سے کہنے لگا
“سر آپ کا بُہت نام سُنا ھے کہ آپ بہُت سخت ھیں پر آپ ایک کام کریں سامنے میز پر پڑی ماچس کی ڈبیہ مجھے دیں اور مُجھ سے منوا کے دیکھ لیں”
ہم بھی نئے نئے SHO اپنے لیئے چیلنج سمجھ لیا اور ماچس کی ڈبیہ اُٹھا کر اُسے دے دی مُصطیٰ کورائی نے ماچس کی ڈبیہ اپنے دائیں ھاتھ میں لی اور مُٹھی بند کر کے اُلٹا لیٹ گیا اور بولا سر اب مجھے
منوا کے دیکھائیں کہ میرے ہاتھ میں ماچس ہے؟
ہر تھانے پر لتر مارنے کے ایکسپرٹ سپاہی ہوتے ہیں ان میں ایک نزیر نیازی بھی تھا جو لتر اُٹھا کر لے آیا اور مارنے کے لئیے آئندہ حُکم کا انتظار کرنے لگا
تھانہ میں ایک پُرانا ملازم گیٹ ڈیوٹی پر کھڑا تھا چل کر میرے پاس آیا اور میرے کان میں بولا سر جانے دیں یہ بڑا سخت جان ہے اس نے نہیں ماننا بےعزتی آپ کی ہونی ہے ایسا نہ کریں
بات میری سمجھ میں آگئی میں نے نزیر نیازی کو اشارہ کیا وہ مُصطیٰ کورائی کو غصے میں گھورتا چلا گیا
میں نے مُصطیٰ کورائی کو بولا تُم جیت گئے ساتھ ہی محرر تھانہ کو بولا کہ کورائی کے لیئے اچھا سا کھانا منگوائے اور اسے آج میری طرف سے دودھ بھی پلوائے اور تھانہ سے ملحقہ اپنی رہایش گاہ پر چلا گیا مگر مجھے غُصہ بُہت تھا جو میں نے کنٹرول کیا ہوا تھا
اگلے دن رحیم یارخان میٹنگ تھی وہاں میری ملاقات انسپکٹر چوہدری صادق گُجر شہید سے ہوئی میں اکثر اُن سے مشورہ کیا کرتا تھا
اُن کو رات والا قصہ سُنایا تو ہنسنے لگے اور پنجابی میں بولے “اوندے بوئے بند کر دے بولے گا” مطلب اُس کی رہائی کی تمام اُمیدیں ختم کر دیں تو سب بتائے گا
چناچہ میں نے یہی کیا اُس کی ملاقاتیں بند کروا دیں اور ہر قسم کے سفارشیوں کو منع کردیا کہ اسے میں نے نہیں چھوڑنا چاہے کوئی بھی سفارش کرے
بُہت شفارشیں آئیں دھمکیاں بھی ملیں (آفرز )بھی ہوئیں مگر اب یہ میری عزت کا مثلہ بن گیا تھا
مصطیٰ کورائی بریک ہو اگر ایسا نہ ہوتا تو میرا تھانہ پر رہنا مُشکل ہو جانا تھا ؟
ایک ہفتہ بعد جب میں شام کو حسب معمول تھانہ پر آیا تو حوالات سے مُصطیٰ کورائی نے آواز دی “سر میری بات تو سُنیں مجھے باہر نکلوائں آپ سے بات کرنی ہے”
تھوڑی دیر بعد مصطیٰ کورائی میرے سامنے بیٹھا تھا اور فر فر اپنی تمام وارداتیں بتا رہا تھا
پولیس میں تشدداس لئیے کیا جاتا ہے کہ ملزم کو بریک کیا جائے قانون میں کہیں بھی تشدد کا ذکر نہیں ہے مگر تشدد کیا جاتا ہے وجہ چاہے ملزمان سے برامدگی کی کوشش ہو یا کسی کو خوش کرنا تشدد کرنا غلط ہے
میں نے اکثر دیکھا پولیس تشدد کے خلاف بولنے والوں کی جب اپنی چوری یا ڈکیٹی ہوتی ہے تو یہ گِلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ملزموں کو مہمان بنایا ہوا ہے کوئی انہیں پوچھتا ہی نہیں
ان مُلزمان کے تمام راستے بند کر دیے جائیں سفارشیں نہ مانی جائیں NRO کی اُمیدیں دم توڑ جائیں تو یہ مُلزمان سب کُچھ بتا دیتے ہیں
تھرڈ ڈگری یا تشدد کا استمعال ضروری نہیں ہے صرف دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ ملزم کیسا ہے ؟
اسوقت پاکستان میں بستہ الف اور ب کے تقریباً بدمعاش تھانہ ہر حاضر ہیں ریکارڈ یافتہ مُلزمان بھی گرفتار ہیں
ان میں اکثر مُلزمان مُصطیٰ کورائی جیسے عادی اور سخت جان ہیں اب ان سے تفتیش کرنا اداروں کا کام ہے
کرپشن کا پیسہ ماچس کی ڈبیہ کی طرح ان کے ہاتھ میں ہے پر دینے کو تیار نہیں کیونکہ ان کو ابھی تک سفارشیں نظر آرہی ہیں کہ یہ بچ جائیں گے جس دن ان کو یہ کنفرم ہو گیا کہ اب تمام راستے بند ہو گئے ہیں کوئی اندرونی یا بیرونی امداد نہیں آئے گی تو پھر قوم کا پیسہ واپس ہو جائے گا لیکن اگر اُمیدیں برقرار رہیں بوئے(دروازے) بند نہ ہوئے تو ان مُصطے کورائیوں سے برآمدگی کرنا مُشکل نہیں نامُمکن ہوگا ؟
نہ تو 90 دن کے ریمانڈ جسمانی میں نہ ریمانڈ جوڈیشل میں اور نہ دس دس سال کیسیز چلانے والے عدالتی نظام میں اتنی ہمت ہے کہ ان سے کُچھ برآمد کروا سکیں پھر یہی باعزت بری ہو کر واپس آئیں گے اور ہمیں بے وقوف بنا کر مُلک لوٹ رہے ہوں گے ؟
Comments