خواجہ سرا اور مدرسہ

ایک سال پہلے تک رانی خان اپنے جیسے دیگر خواجہ سراؤں کی طرح مختلف نجی تقاریب میں ڈانس کر کے گزر بسر کرتی تھیں۔
ایک خواجہ سرا سہیلی بھی ان ہی کی طرح ڈانسر کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس میں وہ ہلاک ہو گئیں۔
چند روز بعد میں نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں میری سہیلی کا حلیہ کچھ بگڑا ہوا تھا اور وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ ڈانس وغیرہ چھوڑ دو۔اس خواب نے زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے اور دین کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا۔
رانی نے سوچا کہ کیوں نا وہ قرآن کی تعلیم حاصل کریں اور اسی سلسلے میں انھوں نے ایک دینی مدرسے میں جانا شروع کر دیا۔وہاں پر موجود دیگر طالب علم مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھتے تھے۔ اسی وجہ سے میں اس جگہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتی تھی۔
کچھ عرصہ تو میں مدرسے جاتی رہی لیکن مدرسے میں روا رکھے جانے والے رویے کی وجہ سے میں نے اپنی والدہ سے ناظرہ قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔اس عرصے کے دوران جب وہ محلے کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے مردانہ کپڑے پہن کر جاتیں تو محلے کے لوگ، جو اُنھیں جانتے تھے، اس کے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔
اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جب باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے صف بندی کی جاتی تو لوگ مجھ سے دس قدم تک کا فاصلہ رکھ لیتے۔
رانی کہتی ہیں کہ مسجد میں لوگوں کے اس رویے نے ان میں عدم تحفظ کے احساس کو مذید بڑھاوا دیا جس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ پیسے اکھٹے کریں گی اور ایک دینی مدرسہ قائم کریں گی جہاں پر خواجہ سراؤں کو دین کی تعلیم دی جائے گی۔
اور آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک مدرسہ ایسا بھی ہے جسے نہ تو کوئی روایتی عالمِ دین اور نہ ہی کوئی معلمہ چلا رہی ہیں بلکہ اس دینی مدرسے کا انتظام و انصرام رانی کے ہاتھ میں ہے۔
مدرسہ بنانے کے لئے مجھے کوئی بھی گھر کرائے پر دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ طویل جدوجہد کے بعد اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے میں ایک گھر کرائے پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔رانی بتاتی ہیں کہ انھیں خواجہ سراؤں کو مدرسے میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے لانے میں بہت جدوجہد کرنا پڑی۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد کی سڑکوں اور چوراہوں پر گئیں جہاں پر خواجہ سرا بھیک مانگتے ہیں۔

’میں نے انھیں مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی، لیکن شروع میں کوئی بھی مدرسے میں آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔40 کے قریب خواجہ سرا مدرسے میں آنا شروع ہوئے مگر دو ماہ بعد ہی اس میں آدھے دوبارہ بھاگ گئے اور چوراہوں پر بھیک مانگنے کا پرانا کام شروع کر دیا۔
رانی کا کہنا ہے کہ اب جتنے بھی خواجہ سرا اُن کے مدرسے میں آتے ہیں اُن کو ماہانہ راشن دیا جاتا ہے اور اس کی اخراجات وہ خود برداشت کرتی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے شوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے انھیں ماہانہ بنیادوں پر میک اپ کا سامان بھی دیا جاتا ہے۔دینی مدرسے کے ساتھ ساتھ ’پناہ گاہ‘ بھی ہے۔
رانی کہتی ہیں کہ ’اس مدرسے میں کسی لڑکے یا لڑکی کے دینی تعلیم حاصل کرنے میں ممانعت نہیں ہے لیکن جس علاقے میں یہ مدرسہ واقع ہے وہاں کے مکین خواجہ سراؤں کے اس مدرسے میں اپنے بچوں کو بھیجنے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔
‘انھیں یہ شکایت ضرور ہے کہ مدرسے کے سامنے سے گزرنے والے راہگیر مدرسے کو اور وہاں تعلیم کرنے والوں کو ’بڑی عجیب نظروں‘ سے دیکھتے ہیں۔
رانی خان کے انٹرویو سے کچھ باتیں
Comments