مولوی کا تصور ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے‘
مولانا طارق جمیل نے بتایا کہ ’دوستوں نے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔۔ اور ہم نے میرے نام سے ایک برانڈ ایم ٹی جے لانچ کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔ ہمارے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے۔‘
دو روز قبل طارق جمیل کے ایک ترجمان نے بتایا تھا کہ کراچی کی ایک کمپنی اپنے برانڈ کے لیے مولانا کا نام استعمال کرنا چاہتی تھی تاہم انھوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔
طارق جمیل اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ’میں کوئی کاروبار اس لیے نہیں کر رہا کہ پیسے بناؤں۔ میں نے ساری زندگی پیسے نہیں بنائے۔۔۔ ہمارا کوئی کاروباری ذہن نہیں۔ جب سے تبلیغ میں لگا ہوں کاروبار نہیں کیا بس 1984 میں ایک بار کپاس کاشت کروائی تھی۔‘
’اس برانڈ سے کاروبار کا ارادہ نہیں ہے۔ اس کی کمائی فاؤنڈیشن پر لگانا چاہتا ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہ اس کی کمائی سے اچھا ہسپتال اور سکول بنائیں گے۔
’ہمارے برصغیر میں علما کا کاروبار کرنا یا تجارت کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات پتا نہیں کہاں سے آ گئی۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ، جن کے فتوے ہم (مسلمان) مانتے ہیں، ان کے زمانے میں اُن سے بڑا کپڑے کا تاجر کوئی نہیں تھا۔‘
انھوں نے اعتراض کیا کہ ’مولوی کا تصور ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے اور وہ لوگوں سے مانگتا ہے۔۔۔ ہم نے کسی کاروباری نیت سے یہ کام نہیں کیا، کسی کے مقابلے میں نہیں کیا۔‘
کاروبار گناہ تو نہیں
’کم از کم میرے مدارس اس سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور میرے دنیا سے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہے۔‘
یاد رہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی مذہبی شخصیت نے پاکستان میں کپڑوں کا برانڈ قائم کیا ہو۔ سنہ 2004 میں موسیقی کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد جنید جمشید نے ملبوسات کا کاروبار شروع کیا تھا جو آج پاکستان کے نمایاں ترین فیشن برانڈز میں سے ایک ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور معروف اینکر عامر لیاقت حسین کے نام سے منسوب کمپنی بھی مردانہ اور زنانہ کپڑے فروخت کرتی ہے۔
ٹوئٹر صارف ادریس اکرمزئی لکھتے ہیں کہ ’تنقید سے گریز کریں کیونکہ تجارت گناہ نہیں ہے۔۔۔ دیگر مذہبی شخصیات کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ کاروبار کریں۔‘
اینکر اقرار الحسن نے کہا کہ ’خبر ہے کہ مولانا طارق جمیل یا اُن کے صاحبزادے نے کپڑوں کے برانڈ کا آغاز کیا ہے۔
’تجارت سنت بھی ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ میں دل کی گہرائیوں سے انھیں مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں اور ناقدین سے گزارش کہ کوئی منطقی یا شرعی دلیل لائیں یا خاموشی فرمائیں۔‘
صارف اریبہ نے لکھا کہ ’کیا مذہبی لوگوں کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کاروبار کریں؟‘
پاکستانی سوشل میڈیا پر اس خبر کے ردعمل میں کئی لوگوں نے تبصرہ کیا ہے۔
یہ اچھی چیز ہے۔ روزی کمانا سب کا حق ہے اور ضرورت بھی۔‘
علی نامی صارف نے طنزیہ لکھا کہ ’ویسے بھی تو مذہب کے نام پر تقریباً تمام مولوی کاروبار ہی تو کر رہے ہیں۔‘
اُم فاروق نامی صارف کے مطابق طارق جمیل کی جانب سے ’بزنس شروع کرنے پر تنقید نہیں بنتی۔‘
’مذہبی افراد کو بھی اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے دولت کمانے کے جائز ذرائع اختیار کرنے چاہییں۔۔۔ ان کی ویور شپ کو بھی یہ ایک عملی میسج ہے کہ اللہ نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا۔‘
Comments