خادم رضوی: تحریک لبیک پاکستان کے بانی کی وفات کے بعد
نئے سربراہ سعد حسین رضوی کی قیادت میں جماعت کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے؟
خادم حسین رضوی کی کم و بیش چار سالہ سیاسی زندگی نے ریاست پاکستان پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں
کہ اب ان کی وفات کے بعد یہ سوال فطری طور پر جنم لے رہا ہے کہ ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟
کیا یہ جماعت ایسے ہی پاکستان بھر میں بالعموم اور پنجاب میں باالخصوص شدت پسندانہ رجحان والے مذہبی نظریات کو فروغ دے کر ملکی معاشرت و سیاست پر اثرانداز ہوگی یا پھر ماضی کی ان مذہبی سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہو گی جو اپنے قائدین کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد ماضی کا قصہ بن کر رہ گئیں۔
علامہ خادم رضوی کے لاہور میں منعقدہ جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ان کے نظریے کی ملک کے ایک خاص طبقے میں مقبولیت کا پتا دیتی ہے۔
خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی اٹھارہ رکنی شوری نے ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا جس کا اعلان جماعت کے مرکزی نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ نے جنازے کے موقع پر کیا۔
لاہور میں خادم رضوی کے جنازے کے موقع پر ان کے بیٹے سعد رضوی نے خطاب میں اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
سعد رضوی اس وقت لاہور میں اپنے والد کے مدرسہ جامعہ ابوزرغفاری میں درس نظامی کے آخری سال کے طالبعلم ہیں۔ درس نظامی ایم اے کے برابر مدرسے کی تعلیم کو کہا جاتا ہے۔
سعد رضوی کے قریبی دوست محمد سلمان نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سعد کو گذشتہ چھ سال سے جانتے ہیں۔
ان کے مطابق خادم رضوی تقاریر اور اعلانات کیا کرتے تھے جبکہ پالیسی دیگر افراد کے ہمراہ اپنے بیٹے کی مشاورت سے بھی تیار کرتے تھے۔ سلمان کے مطابق سعد رضوی شروع دن سے عملی طور پر تحریک لبیک کے تنظیمی امور چلا رہے تھے اس لیے ان کے لیے اس جماعت کو چلانا کوئی نئی بات نہیں ہوگی کیونکہ وہ اکثر معاملات کو پہلے سے خود جانتے اور نگرانی کرتے رہے ہیں۔
سعد کے قریبی دوستوں کے مطابق سعد کا کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سے گہرا رابطہ ہے۔ وہ شاعری سے خصوصی شغف رکھتے اور سب سے اہم یہ کہ وہ جدید دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے بھی خوب واقف ہیں اور فیس بک اور ٹویٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹس چلاتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ علامہ خادم رضوی نے ملک کے اکثریتی سنی العقیدہ بریلوی مکتبہ فکر کی سیاسی بیداری، سٹریٹ پاور اور ووٹ بینک کو نئی طاقت اور سمت دی۔ یہ بات بھی اب واضح طور پر نظرآرہی ہے
دنیا میں مسلح تحریکوں کے خلاف حالیہ چند سالوں میں پیدا ہونے والے واضح اور ایک حد تک اجتماعی مؤقف کے بعد ریاست پاکستان اور اس کے خفیہ ادارے شدت پسند دیوبندی عقیدہ کی حامل جہادی یا دہشتگرد تنظیموں سے قدرے پرے نظر آرہے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والے اس خلا کو، بعض مبصرین کے مطابق سنی بریلوی عقیدہ کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے بہت تیزی سے پر کیا تھا۔ جس کی قیادت اب عملی طور پر نوجوان سعد رضوی کے ہاتھ میں آگئی ہے۔
علامہ خادم رضوی کا جنازہ بتارہا ہے کہ یہ جماعت مستقبل میں اپنی سٹریٹ پاور کے ساتھ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر اثرانداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔
شدت پسندی کے بارے میں مختلف کتابوں کے مصنف اور پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس اسٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہے کہ ’سنی العقیدہ بریلوی جماعتوں کا فروغ پانا کوئی انہونی نہیں تھی بلکہ مختلف عوامل اس کا پتا دے رہے تھے۔
’سنی العقیدہ جماعتوں باالخصوص تحریک لبیک پاکستان نے اس خلا کو پر کیا ہے جو ریاست نے دوسری تنظیموں سے دوری اختیار کر کے پیدا کیا تھا۔‘
عامر رانا کے خیال میں تحریک لبیک اور اس جیسی جماعتیں مستقبل میں بھی پھلتی پھولتی رہیں گی۔‘
تحریک لبیک پاکستان کا سیاسی سفر کم و بیش چار سال پر محیط ہے۔
اس دوران یہ جماعت عملی طور پر پاکستان کی اکثر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی طرح اپنے سربراہ یعنی علامہ خادم رضوی کے گرد ہی گھومتی رہی۔
خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی پارٹی کا مستقبل ان کی پارٹی قیادت کی جانشینی کی اہلیت سے جڑا ہوا ہے۔
#TLP#pkvillage #saeedrizvi #tlpchairman #khadimrizi
Comments