سکھوچک جو کبھی ایک شہرتھا
سکھوچک تحصیل شکرگڑھ کا ایک دور افتادہ تاریخی گاوں جو انڈین باڈر پر واقع ہے۔
جنگ1971 میں بھارت نے اس گاوں پر قبضہ کر لیا ۔71ء کی جنگ کے خاتمہ پر اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو ملک معراج خالد نے سکھوچک کا دورہ کیا اور اس تاریخی گاوں کی تباہی اور عوام کی مفلوک حالی دیکھ کر تاریخی جملہ کہتے ہوئے اپنا کوٹ اتار کر پھینک دیا”کہ میری عوام بھوک سے بلک رہی ہے

اور ان کا سب کچھ تباہ ہوگیا اور میں اپنے جسم پر کوٹ کیسے زیب تن کر لوں”پاکستان کی آزادی سے قبل اس شہر میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔مسلمانوں نے ایک قانونی جنگ کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا قبرستان ہندوؤں سے حاصل کیا -جس کا رقبہ 87 ایکڑ تھا۔
سکھوچک کی سیاست میں میاں شریف۔احمد حسین اور محمد خاں کا نام قابل زکر ہے۔
پاکستان کی آزادی کی تحریک میں سکھوچک کا نمایاں کردار رہا ہے۔تحصیل شکرگڑھ کی سیاست میں سکھوچک کا اثر ہمیشہ رہا ہےملک سلیمان MNA مولانہ غیاث الدین MPA اور پاکستان کی سب سے پہلی خاتون ایمبسیڑ کا تعلق بھی سکھوچک سے تھاقیام پاکستان سے قبل اور 1971ء کی جنگ تک سکھوچک ایک تجارتی منڈی کی حثیت کا حامل تھا
کشمیر کے شہروں سے جوتجارتی مال آتا وہ سکھوچک میں ہی موجودہ پاکستان کے دیگر شہروں سے انے والے تاجر خریدتے اور کشمیر سے آنے والے تاجر اسی گاوں سے اپنی ضرورت کا سامان خرید کر جموں کٹھوعہ سری نگر اور کشمیر کے دیگر علاقوں میں لے جاتے تھے۔1883ء ضلع جنگ کے سرکاری گزٹ کے مطابق اس وقت سکھوچک کی امپورٹ ایکسپورٹ 50382 اور 83000 روپے تھی۔
سکھوچک کی ترقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1947ء میں اس شہر میں بیوٹی پارلر تک موجود تھے چونکہ ریاست کشمیر کے پہاڑی سلسلہ ختم ہونے کے بعد پہلا میدانی شہر تھا
اس لیے فوج کے اعلٰی عہدیدار اور تاجر اسی شہر میں رہائش پذیر تھے۔ اس شہر میں تین منزلہ پختہ محل نما مکانات تھے جن کی باقیات آج بھی اس شہر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
بید کا مکان جو 100 دروازوں پر مشتمل تھا اج بھی بزرگوں کو یاد ہے جس کو مسمار کر سکول کی عمارت تعمیر کی گئی۔ 1947ء میں مہاجرین کی آبادکاری بھی ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مکانات میں کی گئی۔سکھوچک میں چونکہ تجارتی مرکز تھا اور ہندو مذہب کے افراد کی اکثریت تھی اور عبادت گاہوں کا بھی مرکز تھا
آج بھی ہندو مندروں کی بلند و بالا عبادگائیں سکھوچک میں موجود ہیں 1992ء میں بابری مسجد کا واقعہ رونما ہونے کے ان عمارات کو بھی کافی حد مٹانے کی کوشش کی گئی مگر ابھی بھی یہ کسی حد تک سکھوچک کے اطراف میں موجود ہیں۔اور خزانے کے متلاشی افراد نے ان کی رہی سہی کسر بھی نکال دی۔
قیام پاکستان کے بعد ساری تجارت شیخ برادری کے پاس آگئی جو 71ء کی جنگ کے بعد سکھوچک کو چھوڑ کر لاہور کراچی راولپنڈی اور دیگر شہروں میں ہجرت کرگئے۔1971ء کی جنگ میں سکھوچک شہر اور اردگرد کے 400 دیہات پر بھارتی افواج نے قبضہ کر لیا اور یوں 14 ماہ تک تمام علاقہ بھارت کے زیر تسلط رہا اس دوران بھارتی فوج نے سکھوچک میں سب سے زیادہ تباہی پھیلائی اور سینکڑوں سال کی تہذیب کو ملیامیٹ کر دیا۔تین تین منزلہ پکے مکانات اور محلات کی اینٹیں تک لے گئے اور پانی کے تمام کنووں میں زہر ملا دیا۔
تمام درخت کاٹ کر لے گئے صرف زمینوں کی مٹی بچ گئی جو وہ نہ لے جا سکے۔سکھوچک میں دریا کے کنارے آم اور ناشپاتی کے باغات تھے وہ بھی کاٹ لئے اور باقی بچے ہوئے تنے کو زہر لگا گئے تاکہ دوبارہ پودا اگ نہ سکے۔چراگاہیں برباد کردیں اور جو کچھ بچ گیا اس کو آگ لگا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔چھاوں میں کھڑے ہونے کے لیے چند پیپل اور بوہڑ کے درخت متبرک سمجھ کر چھوڑ دیئے گئے۔

سکھوچک سے 3 کلومیڑ دور ہڑڑ خورد میں سوار محمد حسین نے بھارتی فوج کو روکا اور جام شہادت نوش کیا اور اپنی بہادری پر نشان حیدر حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے وقت اجڑنے والا شہر ایک بار پھر 1971ء میں دنیا کے نقشے سے مٹا دیا گیا۔جموں کشمیر سے لٹے پٹے مہاجر جو سکھوچک میں آکر آباد ہوئے تھے
ایک بار پھر اپنی جمع پونچی جنگ کی نظر کر کے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔1973ء میں ایک معاہدہ کے بعد مقبوضہ علاقے پاکستان کو واپس کر دیئے گئے ۔جس میں سکھوچک کا علاقہ بھی شامل تھا۔
دربدر پھرتے مہاجرین واپس آئے اور ایک بار پھر سکھوچک کو آباد کرنے کی کوشش کی۔آہ جو پھر کبھی آباد نہ ہو سکا۔جنگ کے خاتمہ کے بعد اقوام متحدہ کے وفد نے سکھوچک کا دورہ کیا اور اس شہر کو نئے سرے سے آباد کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ 66 کنال زمین پر گورنمنٹ ہائی سکول کے پرشکوہ عمارت فٹبال۔ہاکی اور والی بال کے گراونڈ بنائے گئے ۔
بچوں کے لیے پرائمری سکول اور لڑکیوں کے لیے الگ سے ہائی سکول کی عمارت دوبارہ تعمیر کی گئی۔ ذرائع مواصلات کا نظام بحال کرنے کی خاطر تار گھر/ڈاکخانہ کی دو منزلہ عمارت اور پانی کی ضروریات کے پیش نظر پورے شہر میں واٹر سپلائی لائین بچھائی گئی اور ہزاروں لیڑ پانی سٹور کرنے کے لیے پانی ٹینکی تعمیر کی گئی ۔
جس زمانے میں لوگ بجلی کے نام سے بھی پوری طرح متعارف نہ تھے بجلی کا نظام قاائم کیا گیا۔علاقے میں مرکزی حیثیت کی وجہ سے یونین کونسل کا دفتر بھی بنایا گیا۔طبعی سہولیات کےلئے رورل ڈسپنسری اور جانوروں کےلیے ویٹنری ہسپتال قائم کیے گئے اور جنگ سے متاثرہ افراد کی آبادکاری کیلئے ایک کالونی بنانے کا اعلان بھی ہوا۔
اور کئی سال تک اقوام متحدہ کی جانب سے راشن اور بسترے مہیا کئے جاتے رہے۔
مفلوک الحال لوگوں نے مٹی اور گارے سے گھروں کی تعمیر کی اور آسمان سے چھپنے کی جگہ بنائی۔سکھوچک کے شمال اور مغربی جانب سینکڑوں ایکڑ پر جنگلات لگائے گئےہیں
Comments