قائداعظم کے مقدس پیشہ سے زیادتی کیوں؟
تحریر:-عزیزخان ایڈووکیٹ
– لاہور محکمہ پولیس میں میرا آنا محض اتفاق تھا میں پولیس میں آنے سے پہلے ایل ایل بی کر چُکا تھا-
-اور وکیل بننا چاہتا تھا میرے بڑے بھائی حفیظ خان صاحب بھی مجھ سے پہلے لا کی ڈگری حاصل کر چُکے تھے
-میرے والد صاحب بھی پاکستان بننے کے فوری بعد پولیس میں اسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی ہوئے تھے
-مگر میری دادی صاحبہ نے شور مچا دیا کہ تھانیدار کی قبر میں عوام کے ساتھ ظلم کرنے کی وجہ سے کیڑے پڑ جاتے ہیں
– اور والد صاحب نے دادی صاحبہ کے کہنے پر پولیس کی ملازمت چھوڑ دی والد صاحب کا 1980 میں انتقال ہو گیا
– تو میں نے اور میرے چھوٹے بھائی حبیب خان نے پولیس جوائن کر لی کیونکہ اُن حالات میں ہمارے لیے کوئی اور چوائس نہ تھی
– اگر والد صاحب زندہ ہوتے تو شاید پولیس میں ملازمت نہ کرنے دیتے-
-پولیس میں ملازمت کے دوران میں نے اپنے گھر کے باہر کبھی سرخ نیلی نیم پلیٹ نہیں لگائی
-دوران سفر کبھی کسی کو اپنی پولیس ملازمت کے بارے میں نہیں بتاتا تھا
-کیونکہ دل میں ایک ہی بات ہوتی تھی کی اگر ساتھ بیٹھے مسافر کو پتہ چل گیا میں پولیس ملازم ہوں
تو اُنکا رویہ تبدیل ہو جائے گا کیونکہ عوام کے دلوں میں پولیس ملازمین کے خلاف موروثی نفرت پائی جاتی ہے۔
-ماما اور چھلڑ جیسے القاب پولیس ملازمین کو اکثر سُننے پڑتے ہیں 37 سال ملازمت میں بُہت کم لوگوں کو پولیس ملازم کی دل سے عزت کرتے دیکھا
– ورنہ لوگ خوف اور ڈر سے پولیس ملازم کا لحاظ کرتے ہیں اور دل میں گالیاں ہی دیتے ہیں-
-ریٹائرمنٹ کے بعد وکیل بننے کی خواہش جو برسوں سے میرے دل میں تھی کو میں نہ دبا سکا اور میں نے وکالت کرنے کا فیصلہ کر لیا
– میری پریکٹس کرنے کی دو وجوہات تھیں
: پہلی وجہ
میرا نوری مخلوق کے خلاف خاکی مخلوق کے حق میں تحریریں لکھنا تھا
جس کی وجہ سے نوری مخلوق میرے خلاف ہوسکتی تھی اور اُن کے قہر سے بچنا میرے لیے ممکن نہ ہوتا اگر میں وکیل نہ ہوتا؟؟
-کیونکہ میرے خلاف مقدمات درج کروانا اور میری پنشن بند کروا دینا نوری مخلوق کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا وکالت میں آنے کی
سندھ پولیس کے افسرانکاؤنٹر سپیشلسٹ |
terrorist court bahawalpur announced to hang Killers |
لاہور میں پولیس کی عورت کے ہاتھوں پٹائ |
برے پھنسے ایک پولیس آفیسر کی آپ بیتی |
: دوسری وجہ
پولیس کے برخواست شدہ چھوٹے ملازمین کی سروس ٹربیونل میں مدد کرنا شامل تھا
-اور میں ریٹائیرمنٹ کے بعد گھر میں فارغ بھی نہیں بیٹھنا چاہتا تھا
-پولیس یونفارم کے بعد وکالت کی یونفارم پہننا میرے لیے قابل فخر بات تھی کالا کوٹ پہن کر گھر سے نکلتے ہوئے مجھے بہت اچھا لگتا تھا اور میں فخر محسوس کرتا تھا
-مگر پچھلے سال جب وکلا نے لاہور امراض قلب کے ہسپتال پر حملہ کیا تو مجھے گھر سے کالا کوٹ پہن کر نکلنے پر شرمندگی محسوس ہوئی حالات چاہے جو بھی رہے ہوں وکلا کو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی-
-پھر میں نے لاہور ڈسٹرکٹ بار کے الیکشن ،پنجاب بار کے الیکشن اور لاہور ہائیکورٹ بار کے الیکشن بھی دیکھے جن میں وکلا اُمیدواروں کے کروڑوں کے اخرجات دیکھے
– الیکشن کے بعد عدالت عالیہ کے احاطہ میں جیتنے کی خوشی میں فائیرنگ سے قانون کی دھجیاں بھی اُڑتی دیکھیں
– اب کل سے اسلام آباد بار کے ایک عہدہ دار کی تھانہ میں بیٹھ کر ایک غیر قانونی کام کی حمایت میں گالیاں اور دھمکیاں دینے کی ویڈیو دیکھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا ہے
-عہدہ داران اپنے ووٹروں کی حمایت ضرور کریں مگر کیا ایک پڑھے لکھے معزز پیشہ سے تعلق رکھنے والے وکیل کو اس طرح کی زبان زیب دیتی ہے
– قائداعظم محمدعلی جناح کے مقدس پیشہ کو جس طرح بدنام کیا جارہا ہے یہ ایک المیہ ہے
– بیشک اس مقدس پیشہ کو بدنام کرنے والے عناصر کی تعداد زیادہ نہیں ہے پر ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے
!ادارے بُرے نہیں ہوتے فرد بُرے ہوتے ہیں مگر ان بُرے افراد کی وجہ سے عوام میں تمام وکلا کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی ہے
پولیس تو شروع سے بدنام تھی مگر اب وکلا کا پیشہ بھی کم بدنام نہیں ہے
!پاکستان بار پنجاب بار کے عہدہ داران اور چیف جسٹس پاکستان ،چیف جسٹس صاحبان صوبہ پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان کو کُچھ کرنا پڑے گا
! ایسے عناصر کے خلاف تادیبی کاروئی کرنی پڑے گی ورنہ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی
Comments