ماہواری کے دوران مفت پیڈز تقسیم کرنے والی لڑکی
میں اپنے بھائیوں کو پیڈز لانے کے بارے میں بولنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ میں ان سب چيزوں کے لیے بہت تڑپی ہوں۔
پھر ا س نے فیصلہ کیا کہ میں کچھ ایسا کروں ۔ کہ کوئی بھی لڑکی پیڈز کے لیے نہ تڑپے اور نہ ہی اس کے لیے شرمندہ ہو۔‘

عرفانہ زرگر کا تعارف
ہمارے آس پاس کی خواتین کی بہت سی متاثر کن کہانیاں ہیں ،
جو ان میں خواتین خواتین کی صلاحیت ، لگن اور توانائی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک بہادر خاتون ، دقیانوسی تصورات کو توڑ رہی ہیں عرفانہ زرگر
عرفانہ کا تعلق سری نگر سے ہے۔ اور وہ ہر دن توقعات کا انتظام کرنے اور خوابوں کی تعمیرکرنے میں گزارتی ہے۔
‘ایوا سیفٹی ڈور’ سری نگر میں مفت سینیٹری کی مصنوعات ان خواتین میں تقسیم کرنے کا اقدام ہے۔ جو ایسی مصنوعات کا بیمار کرسکتی ہیں۔
عرفانہ زرگر اپنے حالیہ اقدام کے ذریعے جموں و کشمیر میں دس لاکھ دل جیت اور ان کی داد وصول کررہی ہیں۔
اپنے مرحوم والد کے ساتھ اپنے اس اقدام کو سرشار کرتے ہوئےاس نے اپنے مدد آپ آپ کے تحت یہ کام کررہی ہے۔
اور ہر ایک کی خواہش ہے ۔کہ وہ اپنی زندگی میں خواتین کی بہتری کے لئے اپنی مہم میں شامل ہوجائے۔
سینیٹری پیڈ ہر عورت کی بنیادی ضروریات ہیں اور وہ جو ان کا متحمل نہیں ہوسکتے ہیں ۔ عرفانہ ان تمام خواتین کی مدد کررہی ہے اور آج کے دور میں واقعتا ایک رول ماڈل ہے۔
ہمیں عرفان زرگر جیسے مزید لوگوں کی ضرورت ہے ۔ جو ضرورت مند لوگوں کی مدد اور لاکھوں دوسروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں۔
عرفانہ سرینگر میں ملازمہ ہیں۔ اور سنہ 2014 میں انھوں نے سب سے پہلے کشمیر کے لال چوک نامی علاقے کے ایک ٹوائلٹ میں اپنی بنائی ہوئی ’پیریڈ کِٹ‘ رکھی تھی۔ انھوں نے اس کٹ کا نام ’ایوا سیفٹی ڈور کِٹ‘ رکھا تھا۔ ’ایوا‘ کا مطلب خاتون، ’سیفٹی‘ کا مطلب تحفظ اور ’ڈور‘ کا مطلب دروازہ۔
اس کِٹ میں انھوں نے چند سینیٹری پیڈز، پینٹی (زیر جامہ)، ہینڈ واش اور سینیٹائزر رکھے تھے۔ تاکہ جو خواتین اس ٹوائلٹ میں آئیں ان کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ ایک ٹائلٹ سے جو کام شروع ہوا تھا وہ اب گھر گھر تک پہنچ گیا ہے۔
عرفانہ نے یہ کام اپنی جمع پونجی سے شروع کیا تھا اور ان کا کہنا ہے۔ کہ بعض لوگ ان کو ذاتی طور پر کبھی کبھی پیڈز وغیرہ عطیہ کرتے ہیں۔
لیکن وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ اس کام پر خرچ کرتی ہیں۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ عرفانہ ایک کال سینٹر میں بھی کام کرتی تھیں۔
’میں کال سینٹر میں بہت محنت کرتی تھی۔
میں سارا دن اپنی کرسی سے نہیں اٹھتی تھی۔
میں زیادہ سے زیادہ کام کر کے زیادہ رقم کمانا چاہتی تھی ۔
تاکہ میں اپنی ماں کا بہتر خیال رکھ سکوں – اور زیادہ سے زیادہ غریب لوگوں کی مدد کر سکوں۔‘
ہر اتوار کو وہاں جا کر اپنے والد کی یاد میں بنوائے ہوئے پانی کے نلکے کی صفائی کرتی تھیں ۔جس سے ان کے بقول انھیں ’بہت سکون ملتا تھا۔‘
پھر ایک دن انھوں نے دیکھا کہ پانی کے نلکے کے قریب جو ٹوائلٹ ہے۔ اس میں پانی نہیں اور واش روم گندا بھی کافی تھا۔
تب انھیں یہ خیال آیا کہ اگر خواتین یہاں آتی ہیں۔ اور ان میں سے کسی کے اگر پیریڈ یا ماہواری کے دن ہیں تو وہ کیا کرتی ہوں گی؟
عرفانہ بتاتی ہیں ’میں نے سوچا کہ ہر ایک عورت کا اپنا وقار ہوتا ہے۔ عزت ہوتی ہے جس کی بات قرآن میں کہی گئی ہے۔ میں نے سوچا کہ میں پیریڈز کے سامان کی ایک کِٹ بناؤں۔
اگر خواتین کو اچانک پیریڈز ہو جائیں یا ان کے پاس پیڈز نہیں ہوں ۔ تو اس ٹوائلٹ میں ان کے لیے کچھ انتظام ہو۔
میں نے گھر پر ہی ایک کِٹ بنائی۔ جس میں میں نے سینیٹری پیڈز رکھے، پینٹی (زیر جامہ) رکھی اور ہینڈ واش رکھا۔ ساتھ ہی سینیٹائزر بھی رکھا .
کیونکہ اگر کبھی پانی ختم ہو جائے یا ہینڈ واش ختم ہو جائے تو خواتین سینٹائزر استعمال کر سکیں۔‘
میں نے آج کٹ رکھی، کل واپس جاتی ہوں تو وہاں سے وہ کٹ غائب ہوتی۔ وہاں کا جو نگران تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہاں جو خواتین آتی ہیں وہ انہی پیڈز کو اپنے بیگز میں بھر کر لے جاتی ہیں۔
اس کے بعد میں نے اس نگران سے کہا ۔کہ وہ خواتین کو ٹوائلٹ کے اندر جانے کی اجازت دینے سے پہلے ان کے بیگز باہر رکھوا لیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ پیڈز کی چوری کم ہو گئی۔‘
خاتون کے گھر کے باہر فائرنگ کر کے شادی |
پونیس آفیسر کی آپ بیتی |
پاکستانی عورتیں کون سی ڈیٹنگ ایپ کا استعمال کرتی ہیں |
سماج میں خواتین کے لیے ماہواری سے متعلق آگاہی پھیلانا یا کھل کر ماہواری کی پراڈکٹس تقسیم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
’میری ماں نے مجھے ہمیشہ سپورٹ کیا اور میرے بھائیوں نے شروع میں اس کام کو پسند نہیں کیا. ان کو میرا سوشل میڈیا پر پیریڈ سے متعلق بات کرنا پسند نہیں تھا۔
جہاں تک رشتہ داروں کی بات ہے. بعض نے کہا کہ یہ تو پیڈز بانٹنے لگی ہے . اس نے تو خاندان کا نام ہی خراب کر دیا ہے۔
کسی نے کہا اس کا رشتہ اس لیے ہی نہیں مل رہا ہے کہ یہ لڑکیوں کو پیڈز دیتی ہے۔ لیکن بہت سے ایسے رشتہ دار بھی تھے جنہوں نے میرے کام کی ستائش کی۔‘
’لاک ڈاؤن کے دوران تقریباً پورا شہر ہی بند تھا اور ٹوائلٹس تو بند تھے ہی۔ اس دوران میں نے اپنے فیس بک پر یہ پوسٹ کی .کہ اس دوران اگر کسی خاتون کو پیڈز کی ضرورت ہے تو مجھ سے رابطہ کريں۔‘
فیس بک کے زریعے خواتین کی ایک بڑی تعداد نے عرفانہ سے رابطہ کیا۔
میں خواتین کو اپنا نمبر دیتی تھی اور ان سے ان کا پتہ واٹس ایپ کرنے کو کہتی تھی۔ اس بات کی تصدیق کرنے کے بعد کہ یہ خاتون ہی ہے. اور ضرورت مند ہے، میں ان کو پیڈز پہنچا دیتی تھی۔‘
میرے پاس ایک ایسے خاندان کا فون آیا . جہاں ایک گھر میں نابینا ماں ہے اس کی سات جوان بیٹیاں
اور صرف ایک بیٹا ہے. جو بطور سیلز مین ملازمت کرتا ہے۔ اب سوچیے کہ وہ کیسے پیڈز خرید پائیں گی، انھیں تو کپڑا میسر ہو جائے یہ بہت بڑی بات ہے۔‘
بعض اوقعات ایسا بھی ہوا کہ کسی نے پیڈز کے 5 یا 10 پیکٹس بھیجے . لیکن وہ پیڈز تقسیم کرنے سے زیادہ اس بات پر زور دیتے ہیں . کہ میں پیڈز کے ساتھ فوٹو کھچوا کر سوشل میڈیا پر اس تنظیم یا شخص کی پروموشن کروں۔
مجھ سے یا کام نہیں ہو گا۔ میں چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان خواتین کی مدد کریں لیکن اس کا اشتہار کیے بغیر‘۔
سینیٹری پیڈز کے ایک پیکٹ کی قیمت 40 روپے سے 80 روپے کے درمیان ہے. جو ضرورت کے مطابق ہر کسی کی پہنچ میں نہیں ہے۔
جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی |
مطلقہ مسلم خواتین سے حلالہ کے نام پر ہزاروں پاؤنڈ وصول کر رہی ہیں |
مرد مرد کے ساتھ سیکس کیسے کر سکتا ہے |
ڈبل چن ختم اورچہرہ دبلا کرنے کے3 آزمودہ ٹوٹکے |
’میں گاؤں دیہات اور لیبر کالونی میں جاکر کام کرنا چاہتی ہوں۔ میں ایسی جگہوں پر جانا چاہتی ہوں جہاں پیڈز ملتے بھی نہیں ہیں۔ وہاں لڑکیاں کیا استعمال کرتی ہوں گی؟
’خواتین اکثر پیڈز نہ ہونے کی وجہ سے کپڑا استعمال کرتی ہیں ۔ اور کبھی کبھی گندا کپڑا استعمال کرنے سے بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔
کوئی لڑکی اندرونی بیماری کی وجہ سے حاملہ نہیں ہو پاتی ہے تو اس کو طلاق ہو جاتی ہے‘۔
چونکہ پیڈ مہنگا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ اس کی قیمت ان کے کام میں روکاٹ کی وجہ نہ بنے.
اس لیے اب انھوں نے گھر پر ہی اپنے ہاتھ سے خواتین کے لیے کپڑے کے پیڈز بنانا شروع کیے ہیں۔ جو سستے ہیں اور جن کو دھو کر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
۔Proud daughter of Kashmir
#RoleModel#Youth#Inspiration#Sanitarypads #Kashmir#Srinagar#WomenEmpowerment #MumkinHaiYeh
Comments